سری لنکا: میڈیا اداروں میں ریپ کی دھمکیوں کے الزامات

خواتین صحافیوں نے گذشتہ دنوں میں نیوز رومز میں اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی تفصیلات شیئر کی ہیں جس کے بعد حکومت نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

عالمی می ٹو مہم کا 2018 میں ایک مارچ۔ سری لنکا کے میڈیا اداروں میں جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد ملک میں می ٹو مہم زور پکڑ رہی ہے (اے ایف پی فائل)

سری لنکا کے میڈیا اداروں میں سینیئر ایڈیٹروں اور سیاست دانوں کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد حکومت نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

ملک کے ٹاپ میڈیا اداروں میں خواتین کو ریپ کی دھمکیوں، منظم بدانتظامی اور جنسی ہراسانی کے الزامات سامنے آئے ہیں جس سے جنسی تشدد کے خلاف عالمی مو ٹو مہم سری لنکا میں بھی اب زور پکڑ رہی ہے۔ میڈیا اداروں کے نیوز رومز میں کام کرنے والی کئی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کی تفصیلات بھی عام کی ہیں۔

آن لائن اخبار کولمبو گزٹ کی رپورٹ کے مطابق وزیر برائے میڈیا کہلیا رامبکویلا نے کہا ہے کہ ان کی وزارت خواتین صحافیوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم خواتین صحافیوں سے بات کریں گے اور اگر کوئی ایسے واقعے ہوئے ہیں تو ہم ایکشن لیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی خواتین صحافیوں نے ٹوئٹر پر اپنے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے واقعات شیئر کیے جس کے بعد سری لنکا میں بھی می ٹو مہم نے زور پکڑا اور انسانوں حقوق پر کام کرنے والے اداروں نے تحقیقات کے لیے مطالبات شروع کیے۔

صحافی سارہ کیلاپتھ نے گذشتہ ہفتے کچھ ٹویٹس کیں جن میں انہوں نے ایک ماضی میں ’روزنامہ اخبار ‘ میں ساتھ کام کرنے والے ساتھی پر انہیں ریپ کی دھمکی دینے کا الزام لگایا۔

ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا: ’کسی بھی خاتون کے لیے کام پر ڈریس پہن کر آنا ناممکن تھا کیونکہ پھر انہیں اپنی ٹانگوں اور جسم کے بارے میں مرد کولیگس کے فحش کامنٹ برداشت کرنے پڑتے، یا پھر جب بھی ان کا دل چاہتا مرد ساتھی اونچا سے ’سیکسی‘ کہہ دیتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سارہ کیلاپتھ نے مزید لکھا: ’اب بار ایک عام سی گفتگو کے دوران ایک کولیگ نے مجھے ریپ کی دھمکی دی۔ کچھ دن پہلے جب میں نے اسی کولیگ کی ویڈیو اپنے ٹوئٹر پر دیکھی جس میں وہ میڈیا سے بات کررہے تھے تو مجھے بہت پریشانی محسوس ہوئی۔‘

ان کی ٹویٹس کے جواب میں حافیل فاریز نامی ایک شخص نے کہا کہ سارہ کیلاپتھ نے ٹوئٹر پر یہ الزام ان پر لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’سارہ یا کسی اور شخص کو ریپ کی دھمکی نہیں دی‘ اور الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ’جھوٹے اور نقصان دہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’ریپ سے متعلق سارہ کے ساتھ میری واحد گفتگو ایک ایسے واقعے کے بعد ہوئی تھی جب ایک مرد کولیگ نے ایک اور مرد کو ایک غصے بھری ای میل میں کہا تھا کہ اگر وہ ان کا نام بدنام کرتے رہے تو وہ ان کا ’ریپ‘ کردیں گے۔‘

امریکی صحافی جورڈانا نرین نے بھی ٹوئٹر پر ایک بیان میں ایک اخبار کے ایڈیٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبار میں دو ماہ کی انٹرنشپ کے دوران انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

نرین نے لکھا: ’ان کے اپنے الفاظ میں وہ سری لنکا کے بہترین صحافی تھے۔ میں ان سے بہت سیکھنا چاہتی  تھی۔۔۔ مگر پھر اگلے دو ماہ مجھے ان سے فیور ملتے رہے، پھر ان کی ڈانٹ، پھر  شرمندگی اور وہ بار بار مجھے نازیبا انداز میں چھوتے رہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ خود کو ’پھنسا ہوا‘ محسوس کرتی رہیں اور نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کریں۔ آخر انہوں نے فیلوشپ کے ڈائریکٹر اور کچھ اور کولیگس کو بتا دیا۔

نرین نے لکھا: ’مجھے بہت پریشانی تھی کہ ایک سفید فام غیر ملکی کے طور پر اگر میں اپنے ساتھ ہونے والے رویے کو عام کروں گی تو وہ شاید ناجائز ہوگا۔ اس سے بدتر یہ تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ اگر امریکہ میں لوگوں کو یہ معلوم ہوگا تو میں ایسی جگہ کے بارے میں یہ دقیانوسی سٹیروٹائپ برقرار رکھ رہی ہوں گی جسے میں اب بھی اپنا دوسرا گھر مانتی ہوں۔‘

کوندیا تھناکون نامی ایک اور صحافی نے وہ واقع بیان کیا جب ایک سینیئر کولیگ ان کے مرضی کے بغیر ان کا بوسہ لیا اور کیسے انہیں کئی ماہ تک ان کے ساتھ کام کرنا پڑا۔

ٹوئٹر پر اپنے شو کا ایک کلپ پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’کئی خواتین نے آج میڈیا میں شکاری مردوں کے بارے میں آواز اٹھائی ہے۔ جس دن ہم نے اس شو کی پہلی قسط ریکارڈ کی تو ایک مرد نے مجھے کس کرنے کی کوشش کی۔‘

ایسے چونکا دینے والے الزامات کے سامنے آنے کے بعد سری لنکا کی فران کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن نے بھی متاثرین سے اظہار یکجہتی کی ہے۔

ایک بیان میں ایسوسی ایشن نے کہا: ’ہم میڈیا اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جلد ہی ان الزامات کی تحقیقات کروائیں اور ان کے دوبارہ نہ پیش آنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دفاتر کو ایسا بنائیں جہاں ہمارے سارے کولیگ محفوظ اور برابر محسوس کریں۔‘

دوسری جانب اے ایف پی کے مطابق وزیر میڈیا رامبکویلا نے کہا: ’ہم سخت ترین ایکشن لیں گے۔ ہم مناسب کارروائی سے نہیں ہچکچائیں گے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین