وردی پہن کر ٹریفک روکنے والا برطرف ڈی ایس پی گرفتار

لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق سابق ڈی ایس پی کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے جس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

پولیس کے مطابق برطرف ڈی ایس پی عمران بابر ڈی ایس پی کی وردی پہن کر سوموار کو پہلے رنگ محل تھانے گئے اور سپریم کورٹ کے حکم پر بحالی کا دعوی کرتے ہوئے چارج دینے کا کہا(تصاویر: پنجاب پولیس)

لاہور میں پنجاب پولیس نے 2011-2012 میں محکمہ پولیس کے نظام کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والے ڈی ایس پی عمران بابر جمیل کو ایک بار پھر گرفتار کرتے ہوئے ان کا ریمانڈ حاصل کر لیا۔ دوسری جانب سابق ڈی ایس پی کا دعوی ہے کہ انہیں سپریم کورٹ نے سروس سمیت ایس پی کے عہدے پر بحال کردیا ہے لہذا انہیں ان کے عہدے کا چارج دیا جائے۔

لیکن اس حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات نہ پولیس کو موصول ہوئے نہ ہی ان کے اہل خانہ کو اس بارے میں کچھ معلوم ہے۔

 ایف آئی آر کے مطابق عمران بابر جمیل گزشتہ شام ڈی ایس پی کا یونیفارم پہن کر مال روڑ فیصل چوک آ گئے اور ٹریفک روکنا شروع کردی۔ اس کے علاوہ انہوں نے موقعے پر موجود صحافیوں سے مطالبہ کیا کہ ان کے سامنے آج کا ڈی ایس پی اور کل کا ایس پی کھڑا ہے جو پریس کانفرنس کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے انہیں کوریج دے جائے۔

سابق ڈی ایس پی کی ڈرامائی گرفتاری

پولیس کے مطابق برطرف ڈی ایس پی عمران بابر ڈی ایس پی کی وردی پہن کر سوموار کو پہلے رنگ محل تھانے گئے اور سپریم کورٹ کے حکم پر بحالی کا دعوی کرتے ہوئے چارج دینے کا کہا لیکن پولیس افسران نے انہیں تھانے سے نکال دیا۔ اہلکاروں کا موقف تھا کہ انہیں اس حوالے سے سپریم کورٹ کے کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے۔

جس کے بعد سابق ڈی ایس پی وردی سمیت مال روڑ پر نکل آئے جہاں پنجاب اسمبلی کے باہر متنازع بل کے خلاف صحافیوں کامظاہرہ جاری تھا۔ انہوں نے پہلے گاڑیاں روکنا شروع کردیں پھر گاڑی نہ روکنے والوں کو گالم گلوچ کی۔ اس کے بعد وہ صحافیوں کے پاس گئے اوران سے مخاطب ہو کر کہا کہ انہیں سپریم کورٹ نے ایس پی کے عہدے پر بحال کر دیا ہے۔ ان کی کوریج کی جائے وہ پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔

سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو اس بات پر ان کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی ہوگئے۔

پولیس کے مطابق اہلکاروں نے اعلی حکام سے رابطہ کر کے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے عمران بابر کے بیج اتار لیے جس پر انہوں نے خود ہی اپنی شرٹ اتار کر پولیس اہلکاروں کی جانب پھینک دی۔

پولیس نے انہیں زبردستی گاڑی میں یہ کہہ کرڈالا کہ اعلی حکام انہیں چارج دینے کے لیے بلا رہے ہیں لیکن پولیس انہیں تھانہ سول لائنز لے گئی اور حوالات میں بند کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔

آج منگل کے روز پولیس نے انہیں عدالت میں پیش کیا تو عدالت نے انہیں ریمانڈ پر پولیس کے حوالےکر دیا۔ عدالت میں بھی عمران بابر نے اپنے ساتھ ساتھ زیادتی کی داستان اونچی آواز میں سنانا شروع کر دی لیکن جج کے حکم پر خاموش ہوگئے۔

پولیس ردعمل اور فیملی کی لاتعلقی

لاہور پولیس کے ترجمان رانا عارف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق ڈی ایس پی نے مال روڈ پرگاڑیاں روکی اور ٹریفک بلاک کی شہریوں سے گالم گلوچ کی اور معزولی کے باوجود پولیس یونیفارم میں شہریوں سےنازیبا سلوک کر کے محکمہ کی بدنامی کی ہے۔

ان کے مطابق سابق ڈی ایس پی کے خلاف مقدمہ درج کر کے کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے جس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

رانا عارف کا کہنا تھا ’کہ اگر کسی بھی افسر کو عدالت بحال کرتی ہے تو عدالتی احکامات کی کاپی پولیس کو بھی بھجوائی جاتی ہے لیکن پولیس کو عدالتی حکم نامے کی اس حوالے سے کوئی کاپی موصول نہیں ہوئی۔‘

اس معاملہ پر جب عمران بابر کے بیٹے عمار بابر جمیل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کے والد کو پہلے ہی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر معزول کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ باز نہیں آئے اور نہ صرف محکمہ پولیس بلکہ خاندان کی بدنامی کا بھی باعث بنے ہیں۔‘

عمار بابر جمیل کے مطابق عمران بابر اہل خانہ کی بات نہیں مانتے اور من مانی کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد ان کےساتھ نہیں ہے۔ ہم نے انہیں ایسی حرکتوں سے منع کیا لیکن وہ باز نہیں آئے جس سے بہت شرمندگی اٹھانا پڑی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معزول ڈی ایس پی کے بیٹے نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ان کے پاس بحالی کےعدالتی احکامات ہیں بھی، جن کا ان کے علاوہ خاندان کے کسی فرد کو علم نہیں، تو پھر بھی بحالی کا ایک محکمانہ طریقہ کار ہے۔ پاگلوں کی طرح سڑکوں پر گاڑیاں روکنے شہریوں کو پریشان کرنے پولیس اہلکاروں سے الجھنے کی تو کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ ان کے والد کی گرفتاری کے بعد خاندان کے لوگ قانونی مدد فراہم نہیں کر رہے؟

جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں کچھ علم نہیں ہے نہ ہی ہم ان کے پیچھے گئے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی حرکتیں کئی بار کرچکے ہیں۔ اب ہم میں شرمندہ ہونے کی سکت نہیں رہی۔ ہم اپنی روزی کمائیں یا ان کی ایسی حرکتوں پر وقت ضائع کریں۔‘

واضع رہے سابق ڈی ایس پی عمران بابر نے 2011 اور 2012 پریس کانفرنس کر کے آئی جی پنجاب سمیت محکمہ پولیس کے پورے نظام پر سوالات اٹھانے کے علاوہ پولیس افسران پر سنگین الزامات عائد کیے تھے۔

انہوں نے سی آئی اے پولیس پر ڈکیت گینگ بنانے کا الزام عائد کیا تھا جس پر اس وقت کے آئی جی پنجاب پولیس حبیب الرحمن نے پہلے انہیں ڈیرہ غازی خان ٹرانسفر کیا تھا لیکن جب وہ باز نہ آئے توانہیں اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان