پولیس ایکٹ: اسلام آباد پولیس حکومتی ترامیم کے حق میں کیوں نہیں؟

اسلام آباد پولیس حکومتی ترامیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ جو پرائیویٹ بِل نفیسہ خٹک کی جانب سے پیش کیا گیا اس بِل کو لاگو کروانا چاہتی ہے جبکہ اس ایکٹ پر ضلعی انتظامیہ اور وزارت داخلہ کو بھی اعتراضات ہیں۔

حکومتی ڈرافٹ کا نام آئی سی ٹی ماڈل پولیس ایکٹ ہے جبکہ پرائیویٹ بل کا نام پولیس ایکٹ 2020 ہے (تصویر: اسلام آباد پولیس)

دنیا بھر میں پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے مختلف ماڈلز اپنائے جاتے ہیں اور اصلاحات کی جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً پولیس ایکٹ میں ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی نفیسہ خٹک نے گذشتہ برس ستمبر میں پولیس ایکٹ 2020 وزارت داخلہ کی سب کمیٹی میں پیش کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی ہدایات جاری کی تھیں کہ پولیس کے قوائد تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ بِل پولیس ایکٹ 2020 جو نفیسہ خٹک نے پیش کیا اس پر حکومت نے کچھ ترامیم تجویز کی ہیں۔ 

جس کے بعد تاحال اس ایکٹ پر بحث جاری ہے۔ ان کے مطابق اس ایکٹ پر ضلعی انتظامیہ اور وزارت داخلہ کو بھی اعتراضات ہیں۔ 

لیکن دوسری جانب اسلام آباد پولیس حکومتی ترامیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ جو پرائیویٹ بِل نفیسہ خٹک کی جانب سے پیش کیا گیا اس کو لاگو کروانا چاہتی ہے، کیونکہ اس میں پولیس کے اختیارات لامحدود ہیں جبکہ حکومت نے ترامیم کر کے بہت سے اختیارات محدود کیے ہیں تاکہ پولیس پر چیک اینڈ بیلنس بھی رکھا جا سکے۔ 

وزارت داخلہ اور نفیسہ خٹک کے پولیس ایکٹ کے ڈرافٹ میں کیا فرق ہے؟

حکومتی ڈرافٹ کا نام آئی سی ٹی ماڈل پولیس ایکٹ ہے جبکہ پرائیویٹ بل کا نام پولیس ایکٹ 2020 ہے۔ 

پولیس ایکٹ میں مالی معاملات میں خود مختاری، تحقیقات کے وسیع اختیارات دینے کی بات کی گئی ہے اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کے کردار کو پولیس تحقیقات میں ختم کر دیا گیا ہے۔

آئی جی کو براہ راست وزیراعظم کے ماتحت کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ وزیر داخلہ اس پہ اثر انداز نہ ہو سکے۔ 

پولیس افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر کردہ کا بورڈ طے کرے گا تاکہ پولیس ٹرانسفر پوسٹنگ میں سیاسی رسوخ استعمال نہ ہو سکے۔ 

ایکٹ میں وارنٹ جاری کرنے کے لیے مجسٹریٹ کا کردار ختم کر کے پولیس کو مکمل اختیارات دینے کی بات کی گئی ہے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق یہ بلکل رینجرز والا ماڈل ہے جو کہ پولیس پر لاگو ہونا مشکل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کے پولیس ایکٹ 2020 ماڈل پہ اعتراضات ہیں کہ وفاقی پولیس کے ماڈل کو مقامی پولیس ہی رکھنا چاہیے، وزارت داخلہ اور ضلعی انتظامیہ کا کردار ختم نہیں ہونا چاہیے۔

حکومت نے جو پولیس ماڈل پیش کیا ہے اس میں مالی معاملات کی خود مختاری سمیت ٹرانسفر پوسٹنگز میں چیف جسٹس کے بورڈ کی میرٹ پر پوسٹنگ ٹرانسفر کرنے جیسے معاملات پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔

پولیس افسر اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

سابق آئی جی اسلام آباد طاہر عالم نے پولیس ایکٹ 2020 کے بیشتر نکات سے اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جس میں پولیس کو ضلعی انتظامیہ کی اجازت درکار ہوتی ہے جیسے پہلا جسمانی ریمانڈ یا پھر کسی قیدی کی راہداری ضمانت یا تلاشی کے وارنٹ لینے کے لیے پولیس کا اپنا جوڈیشل اسسٹنٹ کمشنر ہو جو وارنٹ جاری کر دے اور علاقہ مجسٹریٹ کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ بہت سے معاملات میں اجازت لینے کے چکر میں وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک بات آئی جی کو براہ راست وزیراعظم کے ماتحت کرنے کی ہے تو وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ وزیراعظم کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر معاملہ خود دیکھیں۔ اس لیے آئی جی کو وزیر داخلہ کے ماتحت ہی ہونا چاہیے۔ لیکن سیکرٹری داخلہ والے کچھ اختیارات آئی جی کو دینے چاہیے تاکہ اہم کام صرف سیکرٹری داخلہ کے دستخط کی وجہ سے تاخیر کا شکار نہ ہوں۔

 ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی جی کے اختیارات وسیع ہونے چاہییں اور آئی جی کو کمشنر پولیس میٹرو پولیٹین کا درجہ دینا چاہیے لیکن اس کے لیے قوائد و ضوابط ہونے چاہییں تاکہ آئی جی اور ماتحت عملہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرے اور اسامہ ستی جیسے واقعات پیش نہ آئیں۔ 

ضلعی انتظامیہ کے مطابق پولیس کے اوپر چیک ہونا چاہیے جب پولیس پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا تو اسامہ ستی جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔

 اسلام آباد میں گذشتہ ماہ سری نگر ہائی وے پر ایک 22 سالہ نوجوان کو پولیس کے انسداد دہشت گردی اہلکاروں کی جانب سے 22 گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں انکوائری رپورٹ میں ثابت ہوا کہ آپسی چپقلش کے باعث یہ قتل پلاننگ کے تحت کیا گیا تھا جسےشروع میں پولیس مقابلے کا نام دیا گیا تھا۔

اسامہ ستی واقعے کے بعد کونسل فار پولیس ریفارمز، فیڈریشن آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور جسٹس فار اسامہ ستی ایکشن کمیٹی نے پولیس اصلاحات کے حوالے سے ایک بِل بنایا جس کا نام اسامہ ستی پولیس ریفارمزبِل 2021 ہے۔ 

اس بل میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل انکوائری کا خودکار نظام ہو تاکہ پولیس حراست یا پولیس مقابلے میں اگر کسی کی موت واقع ہو جاتی ہے تو ہائی کورٹ کے جج کے زیر نگرانی بغیر کسی درخواست کے ازخود انکوائری کی جائے۔ بل پبلک سیفٹی کمیشن بنانے کی بات کی گئی ہے۔ 

بل کے مطابق پولیس کو کرپشن سے بچانے کے لیے پولیس کی انتظامی اور تحقیقاتی اخراجات کی سو فیصد ادائیگی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ریاست پر ہے۔ اس کے علاوہ  پولیس اہلکاروں کے خاندانوں کے لیے سوشل سکیورٹی کا نظام وضع کیے جانے کا بھی کہا گیا ہے۔ تاہم یہ بِل ابھی کمیٹی میں پیش ہونا ہے۔

جبکہ پولیس ایکٹ 2020 اور آئی سی ٹی ماڈل پولیس ایکٹ پر مزید بحث 16 فروری کو ہونے والی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں متوقع ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان