راولپنڈی: رواں سال قتل اور چوری کی وارداتوں میں اضافہ، وجہ کیا؟

راولپنڈی پولیس کے جاری کردہ اعداد شمار میں سال 2020 اور 2021 کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے سال کے جرائم رواں سال کے ابتدائی چھ مہینوں سے قدرے کم ہیں۔

راولپنڈی پولیس ترجمان کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مجموعی طور پر جرائم بڑھے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی) 

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے تازہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں 105 افراد قتل ہوئے ہیں۔ یہ تعداد گذشتہ پورے سال کے مقابلے میں تین فیصد زیادہ ہے۔

راولپنڈی پولیس نے روزانہ کی بنیاد پر جرائم کے اعداد و شمار جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گذشتہ جاری کیے گئے اعداد شمار میں سال 2020 اور 2021 کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے سال کے اعداد و شمار رواں سال کے ابتدائی چھ مہینوں سے قدرے کم ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس کے اب تک کے چھ ماہ کے دوران راولپنڈی میں قتل اور چوری کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال پہلے چھ ماہ میں 102 قتل ہوئے جب کہ رواں برس کے ابتدائی چھ مہینوں میں 105 افراد قتل ہوئے ہیں۔ اسی طرح موٹر سائیکل چوری میں دس فیصد جبکہ نقب زنی میں 31 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دوسری جانب گاڑیوں کی چوری میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اعداد شمار کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال 34 فیصد کم گاڑیاں چوری ہوئی ہیں۔

راولپنڈی میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے اور جرائم بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے راولپنڈی پولیس سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مجموعی طور پر جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

راولپنڈی پولیس کے ترجمان سجاد کے مطابق رواں برس موٹر سائیکل چوری اور نقب زنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نقب زنی وہ وارداتیں ہوتی ہیں جن میں گھروں میں چوری کے واقعات شامل ہیں جس کی بڑی وجہ کرونا وبا اور معاشی تنگی بھی ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے ریکارڈ کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مجموعی طور پر جرائم بڑھے ہیں۔ ہم نے راولپنڈی کے کمرشل، کینٹ، فیض آباد، پیر ودھائی اور رش والے علاقوں میں اپنے بجٹ سے سکیورٹی زوم کیمرے لگائے ہیں جن کو کنٹرول روم سے مانیٹر کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہاں جرائم کچھ حد تک قابو میں آ گئے ہیں لیکن جہاں کیمرے نہیں لگے وہاں مسائل ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راولپنڈی کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کب مکمل ہو گا؟ اس سوال پر پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق رواں برس بجٹ میں سیف سٹی کیمروں کے لیے رقم مختص کر دی گئی ہے اور امید ہے آئندہ برس تک راولپنڈی میں سیف سٹی کیمرے لگ جائیں گے، جس سے جرائم قابو کرنے میں آسانی رہے گی۔

راولپنڈی میں گذشتہ 12 برس سے جرائم کی خبریں رپورٹ کرنے والے مقامی صحافی عمران اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ راولپنڈی میں جرائم کی سب سے بڑی وجہ پولیس نفری کا ناکافی ہونا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’پولیس کا خود بھی یہ ماننا ہے کہ نصف سے زیادہ نفری وی آئی پی موومنٹس میں مصروف ہوتی ہے۔ مثلاً اگر دیکھا جائے تو راولپنڈی جتنا گنجان آباد ہے اس لحاظ سے راولپنڈی کے علاقے صادق آباد، جس کی آبادی لگ بھگ چھ لاکھ ہے، وہاں مختص 70 کانسٹیبل یقیناً ناکافی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ جرائم بڑھنے کی دوسری بڑی وجہ جو انہوں نے دیکھی وہ وسائل اور جدید سہولیات کا کم ہونا ہے۔

’گذشتہ دور حکومت میں راولپنڈی سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا تاکہ شہر میں جدید سکیورٹی کیمرے لگا کر جانچ کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے لیکن بعد ازاں نہ وہ پروجیکٹ مکمل ہو سکا اور نہ جدت لائی جا سکی بلکہ سیف سٹی کے لیے بنائی جانے والی زیر تعمیر عمارت بھی کھنڈر بن چکی ہے۔‘

عمران نے بتایا: ’پچھلے سال راولپنڈی میں جرائم کی شرح اس لیے بھی کم تھی کہ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا، معاشی سرگرمیاں کم تھیں، نقل و حرکت محدود تھی جس کی وجہ سے جرائم خصوصاً چوری کی وارداتیں کم ہوئیں جب کہ رواں برس سٹریٹ کرائم اور موٹر سائیکل چوری واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی تحقیقات اور پولیس ریکارڈ کے مطابق موٹر سائیکل چوریوں میں ’زیادہ تر پیشہ ور بھکاریوں کے بچے ملوث ہوتے ہیں اور چونکہ موٹر سائیکل چوری آسان ہدف ہے اس لیے وہ موٹر سائیکل کے پرزے کباڑیوں کو سستے داموں بیچ کر رقم حاصل کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان