بنگلہ دیش: فیکٹری میں آتش زدگی سے 52 ہلاکتیں

تیس افراد نے ڈھاکہ کے نواحی علاقے روپ گنج میں واقع خوراک اور مشروبات کی چھ منزلہ فیکٹری سے کود کر جانیں بچائیں۔

بنگلہ دیش کے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ایک فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد اس میں پھنس جانے والے 52 افراد جل کر ہلاک ہو گئے۔

پولیس کے جمعے کو جاری بیان میں کہا گیا کہ دارالحکومت ڈھاکہ کے نواحی علاقے روپ گنج میں واقع خوراک اور مشروبات کی فیکٹری میں جمعرات کی دوپہر کو لگنے والی آگ تاحال بجھائی نہیں جا سکی۔

آگ لگنے کے اس واقعے میں 30 افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ فیکٹری کے باہر موجود افراد اپنے پیاروں کا انتظار کرتے رہے۔

روپ گنج کی فیکٹری میں آگ لگنے کا یہ واقع بنگلہ دیش میں اس سے قبل صنعتی اور رہائشی شعبوں میں ہونے والے حادثات کی ایک تازہ کڑی ہے۔

ایسے حادثوں کے حوالے سے بنگلہ دیش کا ریکارڈ کافی خراب سمجھا جاتا ہے۔

2019 میں فروری میں ڈھاکہ کی ایک رہائشی عمارت میں آگ بھڑک اٹھنے سے 70 افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے کا شکار بننے والی اس عمارت میں مبینہ طور پر کیمیکلز کو غیر قانونی طور پر ذخیرہ کیا گیا تھا۔

ہاشم فوڈ اینڈ بیوریجز نامی اس فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد پولیس نے ابتدائی طور پر تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی لیکن فائر بریگیڈ کے عملے کی آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران عمارت کی بالائی منزلوں سے اوپر پھنسے مزدوروں کے لاشیں نیچے اتارنے کے بعد اس تعداد میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ہلاک شدگان کو ایمبولینسوں میں ڈال کر قریبی مردہ خانوں کو منتقل کرنے کے دوران گلیوں میں موجود افراد ان لاشوں کو دیکھ کر سسکتے رہے۔

پولیس انسپکٹر شیخ کبیر الاسلام کے مطابق حادثے میں زخمی ہونے والے 30 سے زائد افراد نے چھ منزلہ عمارت سے کود کر اپنی جانیں بچائیں۔

ایمرجنسی سروسز بھی تک پانچویں اور چھٹی منزل پر لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ فائر بریگیڈ کے عملے نے فیکٹری کی چھت سے 25 افراد کو نیچے اتار لیا ہے۔

تاہم فائر بریگیڈ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان دیباشیش بردھان کا کہنا ہے کہ ’آگ پر قابو پانے کے بعد ہم فیکٹری کے اندر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کریں گے جس کے بعد ہم مزید ہلاکتوں کی تصدیق کر سکیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فائر ڈپارٹمنٹ کے سربراہ دینو مونی شرما کا کہنا تھا کہ ’آگ لگنے کی وجہ فیکٹری کی عمارت میں موجود کیمکلز اور پلاسٹک کی بڑی مقداد کی موجودگی تھی۔‘

فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدورمحمد سیفل، جو آگ لگنے کے بعد باہر آنے میں کامیاب رہے، کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کے بعد فیکٹری میں درجنوں مزدور پھنسے ہوئے تھے۔

ان کے مطابق ’تیسری منزل پر سیڑھیوں کے دونوں دروازے بند تھے۔ دوسرے مزدوروں کے مطابق اندر 48 افراد موجود تھے۔ میں نہیں جانتا ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘

فیکٹری کے باہر اپنے رشہ داروں کا انتظار کرتے عزیزوں کے مطابق انہیں ڈر ہے کہ کچھ برا ہو چکا ہے۔

فیکٹری کی ایک خاتون مزدور کے رشتہ دار نذر الاسلام کے مطابق ’ہم یہاں اپنی بھانجی کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ ہمارا فون نہیں اٹھا رہی تھیں۔ اب تو ان کے فون پر کال بھی نہیں جا رہی۔ ہم بہت پریشان ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا