’عبدالرزاق صنفی منافرت اور مذاق میں فرق نہیں سمجھتے‘

سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق کے پاکستانی سٹار کرکٹر ندا ڈار کو ’مرد‘ کہنے پر سوشل میڈیا صارفین ان پر تنقید کر رہے ہیں۔

ندا ڈار ویمنز ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انگلینڈ کے خلاف بولنگ کر رہی ہیں (اے ایف پی فائل)

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق کا قومی ویمن کرکٹر ندا ڈار کے خلاف صنفی منافرت پر مبنی بیان سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔

سوشل میڈیا صارفین عبدالرزاق کی جانب سے بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچز میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی کھلاڑی ندا ڈار کو ’مرد‘ کہنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

گذشتہ ماہ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ندا ڈار اور عبدالرزاق نے شرکت کی تھی، جس میں گفتگو کرتے ہوئے ندا ڈار کا کہنا تھا کہ ’اگر سکول اور کالجز میں میدان ہوں تو وہ کرکٹ کو ہم نصابی سرگرمیوں کا حصہ بناتے ہیں، دیہاتی علاقوں سے کئی لڑکیاں شہروں میں آتی ہی اس لیے ہیں کہ کرکٹ میں اپنا کیریئر بنا سکیں۔‘

اس موقعے پر پروگرام کی شریک میزبان وفا بٹ نے کہا کہ ’اور جب ان کی شادی ہوتی ہے تو چھوڑ جاتی ہیں کیریئر۔‘

ندا ڈار نے اس سوال کے جواب میں کہا: ’وہ کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کرکٹ کھیل سکیں کیونکہ شادی کے بعد ان کا کیا مستقبل ہو گا، یہ پتہ نہیں ہوتا۔‘

ندا کی بات کا جواب دیتے ہوئے عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ ’شادی نہیں ہوتی، دراصل ان کی فیلڈ ایسی ہے کہ یہ چاہتی ہیں کہ پہلے یہ مردوں کی ٹیم کی برابری کریں۔

’یہ سمجھتی ہیں کہ صرف مرد ہی نہیں ہم بھی سب کچھ کر سکتی ہیں، اس لیے ان میں یہ (شادی کی) خواہش ختم ہو گئی ہے۔ آپ ان سے ہاتھ ملا کر دیکھیں یہ آپ کو خاتون نہیں لگیں گی۔‘

ندا ڈار نے اس کمنٹ کے جواب میں کہا کہ ’ہمارا کام ایسا ہے کہ ہمیں ورزش کرنی پڑتی ہے، ہمیں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کرنی ہوتی ہے اس لیے فٹ رہنا ہوتا ہے۔‘

اس کے جواب میں عبدالرزاق نے کہا کہ ’ان کے بالوں کی کٹنگ ہی دیکھ لیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروگرام کی شریک میزبان وفا بٹ نے اس پر ندا سے سوال کیا: ’میں یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کیا لمبے بالوں کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی؟‘

اس سوال کے جواب میں ندا کا کہنا تھا کہ ’بالکل کھیلی جا سکتی ہے لیکن جس نے شروع سے ہی چھوٹے بال رکھے ہوں انہیں ڈسٹربنس ہوتی ہے۔‘

پروگرام کے میزبان نعمان اعجاز نے اس پر کہا کہ ’تھری پیس سوٹ پہن کر کرکٹ نہیں کھیلی جا سکتی، ہر کھیل کی کچھ چیزیں ناگزیر ہوتی ہیں۔‘

گذشتہ روز مذکورہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور انٹرنیٹ صارفین نے عبدالرزاق کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سلمان نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’میں ندا کے لیے بہت برا محسوس کر رہا ہوں، تصور کریں کہ آپ نے اتنی زیادہ محنت کی ہو، اپنے ملک کے لیے کھیلا ہو اور ایک ٹی وی چینل پر آپ کی توہین کی جائے۔

ایک اور ٹوئٹر صارف نے تحریر کیا: ’لوگ (عبدالرزاق) یہ نہیں سمجھتے کہ مذاق اور صنفی منافرت پر مبنی بیانات میں فرق ہوتا ہے۔ یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ندا ڈار ہاتھوں اور بالوں سے متعلق گفتگو سے خوش نہیں تھیں۔

خاکسار کے نام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تحریر کیا گیا کہ ’ہمارے جیسے معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے لیے خواتین کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور اس طرح ان کی محنت پر پانی بہا دیا جاتا ہے۔ عبدالرزاق کو شرم آنی چاہیے۔‘

ایک اور ٹویٹر صارف نے لکھا کہ ’نفرت کے قابل انداز میں ہر بندہ ندا سے سوالات کر رہا ہے، اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری ویمن کرکٹرز جنس کی بنیاد پر کتنا تعصب برداشت کرتی ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ