خدیجہ صدیقی کیس میں مجرم کی قبل از وقت رہائی پر تشویش

شاہ حسین کو اس کیس میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن انہیں ساڑھے تین برس بعد ہی جیل سے رہا کیے جانے کے معاملے پر سول سوسائٹی تشویش کا شکار ہے اور سوشل میڈیا پر بھی مجرم کی وقت سے پہلے رہائی کا معاملہ گرم ہے۔

شاہ حسین نے مئی 2016  میں اپنی  ہم جماعت خدیجہ صدیقی  کو خنجر کے 23  وار کرکے زخمی کیا تھا (فائل تصاویر: اے ایف پی/ ٹوئٹر)

مئی 2016 میں لاہور کی رہائشی ایڈووکیٹ خدیجہ صدیقی کو خنجر کے 23 وار کرکے شدید زخمی کرنے والے مجرم شاہ حسین کو رواں ماہ 17 جولائی کو جیل سے رہا کیے جانے کے معاملے پر سول سوسائٹی تشویش کا شکار ہے اور سوشل میڈیا پر بھی مجرم کی وقت سے پہلے رہائی کا معاملہ گرم ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک سینئیر وکیل کے صاحبزادے شاہ حسین کو اس کیس میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن انہیں اچھا چال چلن رکھنے پر ساڑھے تین برس بعد ہی رہا کر دیا گیا۔

متاثرہ خاتون خدیجہ سمیت سوشل میڈیا پر دیگر صارفین وزیر برائے جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان  سے شاہ حسین کو ڈیڑھ برس پہلے ہی رہا کردینے کے حوالے سے سوال کر رہے ہیں۔

تمام تر تنقید کے بعد وزیر برائے جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے منگل کو ایک بیان جاری کیا، جس میں ان کا کہنا تھا: ’گذشتہ روز سے ایک مجرم شاہ حسین کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ مجرم کو پنجاب حکومت، آئی جی جیل خانہ جات اور میں نے وقت سے پہلے رہا کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ حسین کو صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ، آئی جی جیل خانہ جات، ہوم سیکرٹری یا سپرنٹنڈنٹ جیل کی طرف سے قانونی اتھارٹی کے تحت ایک بھی چھوٹ نہیں دی گئی۔

’شاہ حسین نے اپنی سزا میں جتنی چھوٹ لی وہ تکنیکی چھوٹ ہے۔ مجرم کو مختلف مشقتیں کرنے، بی اے کرنے، خون دینے، قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنے اور اچھے چال چلن کی بنیاد پر چھوٹ دی گئی اور ان کی بنیاد پر مجرم کی سزا میں تقریباً 17 ماہ کی کمی ہوئی۔ اور یہ تمام ریمیشنز (سزا میں کمی) آئین پاکستان اور قوانین کے مطابق ہیں۔‘

اس حوالے سے شاہ حسین کے وکیل اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شاہ حسین کو جیل قواعد کے مطابق اچھے چال چلن کی وجہ سے چھوٹ ملی۔ جیل قواعد کے مطابق اگر کوئی سزا یافتہ شخص زیادہ بہتر چال چلن کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کی قید میں ایک ماہ کی کمی کی خصوصی چھوٹ دی جاتی ہے جو اس کی سزا ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل دی جاتی ہے۔ اچھے چال چلن کی بنیاد پر عام اور خاص چھوٹ کی وجہ سے ان کی جلد رہائی عمل میں آئی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجرم کو سزا میں چھوٹ دینا ہوم ڈیپارٹمنٹ اور مجرم کے درمیان کا معاملہ ہے، حکومت اس بات کی پابند نہیں ہے کہ وہ سزا میں چھوٹ دینے سے پہلے شکایت کنندہ یا متاثرہ شخص سے اجازت طلب کرے۔

دوسری جانب ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ حماد سعید نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’آئین کے تحت صدر پاکستان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی مجرم کی سزا میں چھوٹ دیں۔ یہ چھوٹ وہ عید، عید میلادالنبی یا  14 اگست وغیرہ کے موقع پر دے سکتے ہیں۔ صدر کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کسی قیدی کی سزا میں چھوٹ دیں اور کسی کو نہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت اپنے طور پر بھی چھوٹ دے رہی ہوتی ہے جو کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے ایکٹ 402 سی کے تحت ہوتی ہے جبکہ جیل حکام جیل قواعد کے تحت سزا میں چھوٹ دیتے ہیں۔ اس میں اچھے چال چلن پر بھی سزا میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک متاثرہ شخص سے اجازت لینے کا تعلق ہے تو چونکہ صدر پاکستان آئینی طاقت ہیں اس لیے انہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن صوبائی حکومت کا کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 402 سی کے تحت مجرم کی سزا میں چھوٹ دیتے ہوئے متاثرہ شخص سے اجازت لینا ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے ایڈووکیٹ خدیجہ صدیقی سے متعدد بار رابطہ کیا تاکہ جان سکیں کہ وزیر جیل خانہ جات کے وضاحتی بیان کو وہ کس طرح دیکھتی ہیں؟ تاہم ان سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔ البتہ گذشتہ رات خدیجہ صدیقی نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لیے بھی یہ بہت حیران کن بات تھی جب انہیں کسی سے یہ معلوم ہوا کہ ان کا مجرم جسے سپریم کورٹ نے سزا دی تھی اسے رہا کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجرم کو کس بنیاد پر سزا میں چھوٹ ملی اس حوالے سے ان کے پاس کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا تھا کہ وہ آئی جی جیل خانہ جات اور وزیر برائے جیل خانہ جات کو خط لکھ چکی ہیں لیکن ان کی طرف سے بھی انہیں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

خدیجہ کا کہنا تھا کہ جیل قواعد کے مطابق جب مجرم کی سزا ختم ہونے میں کچھ وقت رہ گیا ہو تو اسے اچھے کام کرنے پر چھوٹ مل جاتی ہے جیسے خون دینے پر ایک ماہ، قران ختم کرنے پر ایک ماہ کی سزا کی چھوٹ لیکن ڈیڑھ سال کی چھوٹ تو انہوں نے کبھی نہیں دیکھی۔

بقول خدیجہ: ’اس کیس میں انہیں پہلے ہی کہا گیا تھا کہ مجرم کو جیل سے نکلوا لیں گے۔ جیل حکام تک پہنچنا کیا مشکل کام ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حال ہی میں ایک کیس کیا جس میں ملزم کی اپیل 12 سال سے نہیں سنی گئی اور وہ جیل میں ہے، لیکن جہاں اثر و رسوخ استعمال کیا جاتا ہے وہاں اپیلیں بھی فوری لگوا دی جاتی ہیں۔

خدیجہ کا کہنا تھا کہ مجرم شاہ حسین کو ہائی کورٹ نے سزا میں چھوٹ نہیں دی بلکہ سارا کام جیل خانہ جات نے کیا اور اس میں انہیں شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں معلوم ہونے دیا۔ ’حکومت پنجاب کوجب معلوم تھا کہ ہائی کورٹ میں کیس فائل ہو گیا ہے تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ مجھے نوٹس بھجواتے کہ وہ میرے مجرم کو اتنی چھوٹ دینے لگے ہیں، آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں۔‘

خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن نیہا نے خدیجہ صدیقی کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر جیل والوں نے مجرم کے رویے میں مثبت تبدیلی دیکھی تھی اور وہ اسے سزا میں چھوٹ دینا چاہتے تھے تو وہ یہ کام متاثرہ خاتون کی رضا مندی سے بھی کر سکتے تھے۔ خدیجہ کو اس حوالے سے لاعلم رکھا گیا جو میرے خیال سے قابل قبول نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ سزا میں اتنی چھوٹ یقیناً کسی اثرو رسوخ کی وجہ سے دی گئی ہے نہ کہ مجرم کے اچھے چال چلن کی وجہ سے۔‘

دوسری جانب ویمن اینڈ تھیٹر رائٹس ایکٹویسٹ تکریمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پہلی بات تو یہ کہ مجرم نے خدیجہ پر حملہ کیا اور انہیں مارنے کی کوشش۔ اس حملے میں اگر وہ بچ گئیں تو اس سے مجرم کے جرم کی نوعیت کم نہیں ہو جاتی کیونکہ اس کی نیت انہیں مارنے کی تھی۔ پانچ برس میں تو خدیجہ کے زخموں کے بہت سے نشان بھی ابھی ماند نہیں پڑے ہوں گے اور آپ نے مجرم کو پانچ برس سے پہلے چھوڑ دیا۔‘

بقول تکریمہ: ’میرے خیال میں اس پر بہت زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ کون سے ایسے مجرم ہیں جو چھوٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور کیا مجرم کو جیل سے رہا کرنے سے پہلے ان کا نفسیاتی ٹیسٹ کیا گیا؟ جو انہوں نے کیا اس سے ظاہر ہے کہ وہ ایک ممکنہ قاتل ہیں اور وہ اپنی سوچ کو ساڑھے تین سال میں تبدیل نہیں کر سکتے۔‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجرم کو چھوڑنے سے پہلے خدیجہ کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ان سے بات کی جاتی اور اگر مجرم دوبارہ باہر نکل کر وہی حرکت کرتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ‘

سوشل میڈیا پر بھی وزیر برائے جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان کی جاری کردہ وضاحت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

ایک ٹویٹر صارف نے لکھا: ’سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ پنجاب بار کونسل کے وکیل کا بیٹا تھا اور پاکستان میں وکلا کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور میں لکھ کر دینے کو تیار ہو، اس نے خون کا عطیہ نہیں دیا ہوگا، صرف کاغذی کارروائی میں خون کا عطیہ لکھ دیا گیا ہوگا۔‘

ایک اور صارف نے لکھا: ’ایڈووکیٹ خدیجہ پر حملے کے مجرم شاہ حسین کی سزا میں تین وجوہات کی وجہ سے کمی کی گئی۔ جیل میں خون کا عطیہ دینا، قرآن مجید ترجمہ سے پڑھنا اور جیل میں اپنی تعلیم جاری رکھنا۔ شاید اسی لیے قانون کو موم کی ناک کہا جاتا ہے، طاقتور ضرورت کے تحت موڑ لیتے ہیں۔‘

شاہ حسین کو 2017 میں جوڈیشل میجسٹریٹ نے اپنی کلاس فیلو کو مارنے کی کوشش کرنے پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 324 کے تحت سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں سیشن کورٹ نے یہ سزا کم کرکے پانچ سال کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ نے شاہ حسین کو کمزور شواہد کی بنیاد پر 2018 میں بری کر دیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے ان کی سزا کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان