آپ کو ہماری طاقت کا صحیح اندازہ نہیں: ہواوے کا امریکہ کو پیغام

گوگل کے ہواوے سے تعلقات منقطع کرنے کے اعلان کے بعد ایشیائی مارکیٹس دباؤ کا شکار۔ ہانگ کانگ، ٹوکیو اور سنگا پور مارکیٹ میں 0.4 فیصد کمی۔

بیجنگ میں ایک بچہ ہواوے کے سٹور کے باہر موجود ہے۔ امریکہ کی جانب سے ہواوے  کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے فیصلے نے ٹیکنالوجی کمپنیوں  پر     ملے جلے  اثرات مرتب کیے ہیں۔(فائل :اے پی)

ایک طرف جہاں امریکہ اور چین کے درمیان ’ٹریڈ وار‘ کی وجہ سے امریکی پابندی کا شکار ہونے والی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کو لے کر ایشیائی مارکیٹوں میں تشویش پائی جا رہی ہے، وہیں امریکی حکام نے اس پابندی پر عمل درآمد میں 90 دن کی توسیع کا اعلان کیا ہے، تاہم ہواوے کے مالک نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو ان کی ’طاقت‘ کا سہی اندازہ نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی حکام کی جانب سے ہواوے پر پابندی کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے 90 دن کی رعایت کا اعلان کیا گیا ہے جس کے دوران ہواوے کے پاس امریکی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار جاری رکھنے کا عارضی لائسنس ہوگا۔

کامرس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کیے گئے فیصلے کا مقصد کاروباری طبقے پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلامیے کے مطابق: ’اس قدم سے صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘

کامرس سیکرٹری ولبر روس نے کہا: ’یہ عارضی رعایت امریکی کمپنیوں کو متبادل تلاش کرنے میں مدد دے گا اور ڈیپارٹمنٹ کو بھی وقت دے گا کہ وہ ان امریکی اور غیر ملکی ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے طویل مدتی اقدامات اٹھا سکے جو ضروری سروسز کے لیے ہواوئے کی مصنوعات پر انحصار کرتی ہیں۔‘

 ٹرمپ کی جانب سے ہواوے کو بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ قومی سلامتی کو مدنظر رکھ کے کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے اثرات چینی اور امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر مرتب ہوں گے۔

ایشیائی مارکیٹوں میں مندی

علاقائی سرمایہ کاروں کو بھی اُس وقت خدشات کا سامنا کرنا پڑا جب ٹیکنالوجی جائینٹ گوگل نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ وہ ہواوے سے تعلقات منقطع کر رہا ہے۔ جس کے بعد نیو یارک سٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ پر ہواوے کے بزنس میں کمی دیکھی گئی۔

گوگل کا یہ اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہواوے کو بلیک لسٹ کرنے کے کچھ دن بعد سامنے آیا ہے۔

بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ٹریڈ ٹیرف کو لے کر پیدا ہونے اختلاف نے معاملے کو اُس وقت اور گھمبیر بنا دیا جب امریکہ کی جانب سے اس  فیصلے کو قومی سلامتی سے جوڑا گیا۔

مئی کے آغاز میں یہ معاملہ اختتام پذیر ہوتا دکھائی دے رہا تھا، لیکن اب ماہرین معاشیات کے مطابق اس صورتحال کا اُس وقت تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا جب تک جون میں ہونے والے جی 20 سمٹ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ ملاقات نہیں کر لیتے۔

فرسٹ فرینکلن فنانشل سروسز کے چیف مارکیٹ سٹریٹجسٹ بریٹ اوینگ نے کاروباری خبر رساں ادارے بلوم برگ کو بتایا: ’مارکیٹ اس بارے میں پر امید تھی کہ یہ معاملہ اسی ماہ حل ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب ڈیلرز ان تجارتی معاہدوں پر لمبے عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘

اس تنازع سے امریکہ اور چین دونوں پیچھے ہٹتے دکھائی نہیں دے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیر کو یورپی یونین کے لیے چینی ایلچی نے بھی ہواوے کے بارے میں کیے جانے والے فیصلے کو ’غلط قدم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔‘

زینگ منگ نے تنبیہہ کی کہ چینی کمپنیوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو چینی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گی۔

اس امریکی فیصلے نے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ملے جلے اثرات مرتب کیے ہیں۔

گذشتہ روز ہانگ کانگ کی کمپنی ٹین سینٹ کے بزنس میں 1.3 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی جبکہ لینوو اور اے اے سی کے کاروبار میں اضافہ ہوا۔ تائیوان اور ٹوکیو میں سونی اور شارپ کے کاروبار میں بھی چار فیصد تک مندی دیکھی گئی۔ سیئول میں سام سنگ کے کاروبار میں تین فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اسی طرح ہانگ کانگ، ٹوکیو اور سنگا پور میں 0.4 فیصد، تائی پے میں 0.1 فیصد کمی جبکہ شنگھائی میں 0.3 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 

دوسری جانب ہواوے کے مالک رین زینگفی اپنی کمپنی پر عائد پابندی سے زیادہ پریشان نہیں لگتے اور مانتے ہیں کہ امریکہ ہواوے کو ’انڈر ایسٹیمیٹ کر رہا ہے۔‘

اے ایف پی کے مطابق چینی سرکاری میڈیا سے بات کرتے ہوئے رین نے کہا: ’امریکی سیاست دانوں کے اقدامات سے لگ رہا ہے کہ وہ ہماری طاقت کا درست اندازہ نہیں لگا پا رہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہواوے فائیو جی کو اس فیصلے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ہماری فائیو جی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں بہترین ہے اور باقی کمپنیوں کو اس مقام تک آنے میں کئی سال درکار ہوں گے۔‘

دنیا بھر کے زیادہ تر سمارٹ فونز امریکی کمپنی گوگل کے اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم پر چلتے ہیں اور گوگل نے بھی ہواوے سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

معاملے پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس فیصلے سے ہواوے کے کاروبار پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں کیونکہ ہواوے فونز استعمال کرنے والے صارفین گوگل کی سروسز استعمال نہیں کر سکیں گے جن میں گوگل میپس اور جی میل شامل ہیں۔

تاہم ہواوے کے مالک رین کہتے ہیں :’90 دن کے رعایتی لائسنس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم تیار ہیں۔‘

ان کے مطابق، ’ہواوے کی مصنوعات میں استعمال ہونے والی نصف سے زیادہ چپس امریکہ سے آتی ہیں جبکہ باقی چینی کمپنیوں سے خریدی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں دنیا میں تنہا نہیں کیا جا سکتا۔ ہم بھی امریکی چپس جیسی چپس بنا سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں خریدیں گے نہیں۔‘

ہواوے پر جاری محاز آرائی نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے اور مذاکرات کی ناکامی کے بعد دونوں جانب سے تجارتی ٹیرف میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔

امریکی انٹیلی جنس اداروں کا ماننا ہے کہ ہواوے چینی فوج کی حمایت یافتہ کمپنی ہے اور چین اس کے ذریعے حریف ملکوں کے ٹیلی کمیونیکیشن کے نظام میں دخل اندازی کر سکتا ہے۔

اسی وجہ سے واشنگٹن نے اپنے اتحادیوں کو بھی ہواوے کو رد کرنے کا کہا ہے لیکن فائیو جی ٹیکنالوجی میں مناسب متبادل کی تلاش ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے ’نیشنل ایمرجنسی‘ کا اعلان کیا تھا، جو ان کو ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی بنیاد پر ’کمپنیوں کو بلیک لسٹ‘ کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے اس کو ہواوے کے خلاف ایک واضح اشارہ کہا گیا تھا۔

جب رین سے پوچھا گیا کہ ہواوے کب تک مسائل کا سامنا کر سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ’اس سوال کا جواب آپ کو ٹرمپ سے پوچھنا چاہیے، مجھ سے نہیں۔‘

یہ پابندی ناکام ہو سکتی ہے؟

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ہواوے دنیا بھر میں سمارٹ فونز فراہم کرنے والی بڑی کمپنی ہے۔ صرف امریکہ میں چینی مصنوعات کے ساتھ 52 ہزار نوکریاں وابستہ ہیں۔ چین 2025 تک ٹیکنالوجیکل خود مختاری کی پالیسی اختیار پر گامزن ہے۔

گوگل کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

گوگل کو صرف اشتہاروں کی مد میں کسی حد تک نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس پابندی کے بعد ہواوے کے فونز پر گوگل کے اشتہارات بند ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ہی گوگل کو لائیسنسگ فیس سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔

 فائدہ کس کا ہوگا؟

ہواوے پر پابندی سے ایپل اور سام سنگ دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اگر چین بھی جواب میں ایسی ہی پابندی کا اعلان کر دے تو ایپل کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ ایپل کے سب سے زیادہ فونز چین میں ہی اسمبل کیے جاتے ہیں۔

چینی حکومت اس حوالے سے اقدمات اٹھا کر ایپل مصنوعات میں استعمال ہونے والی سپلائیز کو روک سکتی ہے۔ ایپل کے خلاف کوئی بھی ایسی کارروائی ایپل کو مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔

دوسری جانب بیجنگ اس معاملے کو قومی معاملہ بنا سکتا ہے جس کے بعد چینی صارفین کی جانب سے امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا