افغانستان: طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں معروف تاریخ دان قتل

افغانستان کے صوبہ ارزگان میں معروف تاریخ دان اور مصنف عبداللہ عاطفی کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔

گذشتہ روز افغان طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مزید حکومتی عہدیداروں کو بھی حملوں کا نشانہ بنائیں گے (اے ایف پی)

افغانستان کے صوبہ ارزگان میں معروف تاریخ دان اور مصنف عبداللہ عاطفی کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ جنوب مغربی صوبے ارزگان کا ضلع چورا کچھ عرصے سے طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ تاہم تاحال کسی گروپ یا فرد نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

عبداللہ عاطفی نے یوکرین میں معاشیات اور انجینئرنگ میں دو ماسٹر ڈگریاں حاصل کی تھیں۔

انہوں نے 20 سال قبل تاریخی کتاب ’قدیم پشتون عبرانی مشرقی سلطان‘ کے عنوان سے شائع کی تھی۔ ان کی کئی تحریریں شائع کروانے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے چھپ نہیں سکیں ہیں۔

یاد رہے کہ طالبان نے گذشتہ ہفتے قندھار میں ایک معروف سوشل میڈیا شخصیت کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔


’ابھی تو شروعات ہے‘

افغان طالبان نے حکومتی عہدیداروں پر مزید حملے کرنے کی دھمکی دی ہے جبکہ ساتھ ہی ان کی جانب سے ایک اور ضلعے کے مرکز پر قبضے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کی صبح ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کے جنگجوؤں نے نمروز صوبے کے ضلع کنگ کے مرکز کا کنٹرول لے لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ شب اسلام امارات کے مجاہدین نے صوبے نمروز کے ضلع کنگ کے مرکز، پولیس ہیڈکوارٹر، انٹیلی جنس سینٹر کا کنٹرول لے لیا ہے۔‘

تاہم اس حوالے سے تاحال افغان حکومت کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے مزید لکھا کہ ’اس دوران سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیے اور مجاہدین کے ساتھ شامل ہو گئے۔‘

’بڑی تعداد میں ہتیھار، گاڑیاں اور بارودی مواد بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔‘

خیال رہے کہ افغان طالبان اس سے قبل بھی متعدد اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب گذشتہ روز افغان طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مزید حکومتی عہدیداروں کو بھی حملوں کا نشانہ بنائیں گے۔

ایسا ان کی جانب سے کابل میں افغان وزیر دفاع پر قاتلانہ حملے کے بعد کہا گیا ہے۔

کابل میں وزیر دفاع بسم اللہ محمدی پر منگل کی شب فائرنگ کرنے کے بعد بم حملہ بھی کیا گیا تھا۔


افغان طالبان کا امریکہ پر الزام

افغانستان میں طالبان نے کہا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے ’ان افغانوں کو جو امریکیوں کے ساتھ بحیثیت مترجم یا کسی دوسری حیثیت سے کام کرتے تھے اپنے آبائی ملک کو چھوڑنے کے لیے ویزوں کی پیشکش اور حوصلہ افزائی واضح مداخلت ہے جس کی اسلامی امارات مذمت کرتی ہے۔‘

’ہم پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ ترجمانوں اور دیگر کارکنوں کو جو پہلے امریکہ کے ساتھ اتحادی تھے امریکی قبضے کے خاتمے کے بعد کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ دھمکیوں کے خوف کے بغیر اپنے وطن میں آرام سے رہ سکتے ہیں۔ ہم امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایسی مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے باز آئے۔‘

خبر رساں دارے اے ایف پی کے مطابق کابل حملے پر افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ حملہ تو کابل انتظامیہ میں شامل افراد اور عہدیداران جو ملک میں حملوں اور بمباری کا حکم دے رہے ہیں کے خلاف جوابی کارروائیوں کا آغاز تھا۔‘

اسی بارے میں افغان صدر اشرف غنی نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’انہوں (طالبان) کابل میں دھماکے کیے لیکن عوام نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔۔ یہ فرق ہے حقیقی اور جعلی مسلمانوں میں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’طالبان منافقت چاہتے ہیں، لیکن ہم جو یہاں ایک ساتھ بیٹھے ہیں، اتحاد چاہتے ہیں۔‘

افغان صدر اشرف غنی نے سکیورٹی فورسز کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے کہا کہ ’میں تین ہفتوں میں سکیورٹی فورسز کی تعداد 45000 تک دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم بھرتیوں کے عمل کو آسان بنا دیں گے۔‘

افغان صدر سرکاری دورے ایک دن کے لیے ایران جا رہے ہیں جہاں ان کی ملاقات ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ہوگی۔

صدارتی محل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اشرف غنی اس دوران نئے ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت بھی کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا