بائیو میٹرکس: انسانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ یا انسداد جرائم کا طریقہ؟

ممکن ہے یہ جان کر آپ کو حیرت ہو کہ عوامی مقامات پر بائیو میٹرکس کے ذریعے لوگوں کو شناخت کرنا دوسری جنگ عظیم کے بعد شہری آزادیوں اور حقوق انسانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے۔

کوائف کے تحفظ کے مسئلے پر گذشتہ ماہ یورپی یونین سے وابستہ دو نگران تنظیموں نے عوامی مقامات پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے بائیو میٹرکس کے استعمال سے عوام کی نگرانی کرنے والے نظاموں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

کبھی آپ نے سوچا کہ وہ کیا چیز ہے جو آپ کو آپ بناتی ہے؟ آپ کا نام یا آپ کی اسے اپنا ثابت کرنے کی صلاحیت؟ آپ کے پاس ایک کارڈ یا ایک کاغذ کا ٹکڑا جس پر وہ نام لکھا ہو کیا اس کا ہونا ایک حقیقت ہے؟ اور ایک ایسی دنیا جہاں شناختیں اس قدر آسانی سے جعلی بنائی یا چرائی جا سکتی ہیں تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا ایک دوسرا قابل یقین لیکن جرائم پیشہ ورژن کسی اور جگہ نہایت گھناونے افعال سرانجام نہیں دے رہا؟

یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے جدید بائیو میٹرک انڈسٹری کو جنم دیا ہے، یہ 26 ارب پاؤنڈز کا عالمی کاروبار قدیم طرز کے ٹھوس شناختی ثبوت ترک کرتے ہوئے ان کی جگہ آپ کی منفرد جسمانی خصوصیات کی ڈیجیٹل تفصیلات کو دے رہا ہے۔

آپ پہلے ہی اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر کو محض اسے دیکھ کر آن کر سکتے ہیں۔ یہ چہرے کو پہچاننے والی ٹیکنالوجی ہے۔ یا آپ اپنے کمپیوٹر کو آن کرنے کے لیے ’ڈاکٹی لوسکوپک‘ پر لگا سکتے ہیں سو آپ کو کمپیوٹر یا پیڈ کے لیے محض اپنے فنگر پرنٹ کا استعمال کرنا پڑے گا۔

یہ بہت آسان لگ رہا ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جس انداز میں آپ بات کرتے ہیں وہ سب سے منفرد ہے؟ اور جس انداز میں آپ چلتے ہیں؟ اسی طرح آپ کے کان کی لو اور آپ کا ہاتھ یا آئرس کے نفیس سانچے یا آپ کی رگوں کے پیچیدہ خطوط بھی سب سے مختلف ہیں۔ حتی کہ آپ کے لکھنے کے انداز سے آپ کی شناخت کی جا سکتی ہے۔

یہ سب مل کر یا ان میں سے کوئی ایک بھی چیز آپ کو وہ کچھ بناتی ہے جو آپ ہیں، فطرت اور ارتقائی عمل کی حیران کن حد تک شاندار پیداوار، اور کون شخص ہے جو ان خوبصورت خصوصیات کو بطور شناختی ثبوت بے لطف پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس یا آئی ڈی کارڈ پر ترجیح نہیں دے گا؟

ممکن ہے یہ جان کر آپ کو حیرت ہو کہ عوامی مقامات پر بائیو میٹرکس کے ذریعے لوگوں کو شناخت کرنا دوسری جنگ عظیم کے بعد شہری آزادیوں اور حقوق انسانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے۔ پوری مہذب دنیا میں الیکڑانک پرائیویسی کی مہم چلانے والے، آزادی کے حق میں بولنے والے، کمپیوٹر سے وابستہ سورما اور حتی کہ مذہبی رہنما پوپ تک مصنوعی ذہانت کی نگرانی سے چہرے کی بائیو میٹرکس کرنے کے عمل پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ان کے بقول ہماری موجودہ گم نامی کو ختم کر سکتا ہے۔

 کوائف کے تحفظ کے مسئلے پر گذشتہ ماہ یورپی یونین سے وابستہ دو نگران تنظیموں نے عوامی مقامات پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے بائیو میٹرکس کے استعمال سے عوام کی نگرانی کرنے والے نظاموں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے؛ ایسے نظام جو ایک وقت میں سینکڑوں یا ہزاروں افراد کا پیچھا اور شناخت کر سکتے ہیں۔

 یورپین ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ کے سربراہ اینڈریا جیلنک اور یورپین ڈیٹا پروٹیکشن سپروائز ووچیچ ویوروسکی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’عوامی مقامات پر خود کار بائیو میٹرک شناخت کی تنصیب کا مطلب ان جگہوں پر گم نام رہنے کی آزادی کا خاتمہ ہے۔ چہرے کی مدد سے خودکار شناخت (ایل آر ای) کا نفاذ بنیادی حقوق اور آزادیوں میں اس حد تک دخل ہے کہ ممکنہ طور پر وہ ان حقوق اور آزادیوں کی بنیاد پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے۔‘

گذشتہ برس پوپ فرانسس نے آئی بی ایم اور مائیکروسافٹ کے ساتھ مشترکہ بیان میں چہرہ شناخت کرنے کے سسٹم کے ساتھ مصنوعی ذہانت کے استعمال کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل، لبرٹی، بگ برادر واچ، ادا دا لو لیس انسٹی ٹیوٹ اور دی یورپین ڈیجیٹل رائٹس نیٹ ورکس سے لے کر پرائیویسی انٹرنیشنل تک شہری حقوق کے لیے صدا بلند کرنے والے گروہوں نے مہم شروع کر رکھی ہے کہ بڑے پیمانے پر بائیو میٹرکس نگرانی پر پابندی لگائی جائے۔

اس طرح کی نگرانی کیا ہوتی ہے اور یہ اس قدر متنازع کیوں ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھنا مفید ہو گا کہ ’بائیو میٹرکس‘ سے کیا مراد ہے۔ یہ نفسیات اور طرز عمل کی قابل پیمائش خصوصیات میں تقسیم کی جاتی ہے۔ نفسیاتی خصوصیات میں بطور شناخت کنندہ کے اعضا کی اشکال استعمال کی جاتی ہیں جیسے فنگر پرنٹس، چہرے کی ساخت، رگوں کی ترتیب وغیرہ ۔ ان میں ڈی این اے، خون یا تھوک جیسی حیاتیاتی خصوصیات بھی شامل ہیں۔ طرز عمل کے پیمانوں میں آواز کی پہچان، چال، مختلف تاثرات اور حتی کہ آپ کا دستخط کرنے کا طریقہ شامل ہے۔

شناخت کے لیے بائیو میٹرکس کا استعمال کوئی نئی چیز نہیں، آج سے طویل عرصہ پہلے دو سو سال قبل از مسیح میں بابلی اور چینی سلاطین نے قرار دادوں اور معاہدوں پر فنگر پرنٹس کا استعمال کیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں ہاتھ اور انگلیوں کے نشانات تجارت میں معاہدے کے ثبوت کے طور پر پیش کیے جاتے تھے لیکن 1902 میں پہلی بار برطانیہ میں ایسا ہوا کہ فنگر پرنٹس کے شواہد کی بنیاد پر کسی جرم میں سزا سنائی گئی۔

1860 کی دہائی میں ٹیلی گرافی سپیشلسٹ مورس کوڈ کو استعمال میں لاتے ہوئے نقطوں اور خالی جگہوں کی منفرد فریکوئنسی سے پیغام بھیجنے والے کا نام جاننے کے قابل تھے جو کم و بیش ویسا ہی عمل تھا جیسے آج کی بورڈ کو دبانے سے کمپیوٹر استعمال کرنے والے شخص کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے حتی کہ آپ کے پاسپورٹ میں لگی آپ کی تصویر بائیو میٹرک شناخت کنندہ ہے۔

جدید دور میں فرق یوں پڑا کہ یہ بائیومیٹرکس ڈیجیٹل شکلوں میں تیار کی جا سکتی ہیں جنہیں کمپیوٹر بیک وقت بڑی تعداد میں روشنی کی رفتار سے پڑھ سکتا ہے اور وہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈیٹا بیس کے مشمولات یا ‘واچ لسٹوں‘ سے اس کا موازنہ کرنے کے بعد متعلقہ شخص تک پہنچتا ہے جیسا کہ آپ تک۔

پرائیویسی کے حق میں مہم چلانے والوں کی اصل تشویش عوامی مقامات پر انتہائی اعلی قسم کے چہرہ شناس سی ٹی وی کیمرے (یا دیگر بائیو میٹرک شناخت کنندہ) لگانے اور مصنوعی ذہانت کے استعمال پر ہے۔ وہ ہر وقت پاس سے گزرنے والے افراد کی بائیو میٹرکس سکین، ریکارڈ اور موازنہ کر سکتے ہیں۔

ایک بار اگر یہ ڈیجیٹل شناخت کنندہ آپ کے نام سے منسلک ہو گئے تو دوسرے ملک میں جانے، مالی اور معاشی کھاتوں کی جانچ پڑتال کرنے، تحفظ صحت یا دیگر فوائد کے لیے اپنا استحقاق ثابت کرنے اور اسی طرح مختلف سلسلوں میں آپ کو بار بار انہیں استعمال کرنا پڑے گا تو وہ آپ کی تمام حرکات، کس کے ساتھ آپ کا ربط ہے، کونسے مظاہروں میں آپ نے شرکت کی، اسقاط حمل کے کونسے کلینک پر ممکنہ طور پر آپ گئے، ایل جی بی ٹی کیو+ کے کونسے ‘مے خانوں میں آپ اکثر چکر لگاتے ہیں، کس ڈاکٹر کے ساتھ آپ کی ملاقات طے ہے، کس سیکس ورکر کے ہاں آپ کبھی کبھار پھیرا لگاتے ہیں، یا آپ کی شریک حیات کو آپ کی کن رومانوی ملاقاتوں کا نہیں پتہ یہ سب ایسا شخص جان سکتا ہے جس کے پاس ان کیمروں کا اختیار آجائے چاہے وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، ٹرانسپورٹ کی سہولیات دینے والے، کاروباری افراد یا ریاست ہو۔

ایسیکس یونیورسٹی کے مرکز برائے انسانی حقوق اور شعبہ امور قانون میں سینئیر لیکچرار ڈاکٹر ڈراغ مرے کہتے ہیں ’یہاں تک کہ مشرقی جرمنی میں سرکاری ادارے سٹاسی یا لیبیا میں کرنل قذافی کو بھی اس قدر معلومات تک رسائی اور اختیار حاصل نہ تھا۔ اگر آپ ایک ایسے ملک میں ہم جنس پرست ہیں جہاں یہ غیر قانونی ہے تو پھر آپ کو اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ اگر آپ ایک آمرانہ حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو گرفتاری کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اگر آپ محض مختلف ہونا چاہیں گے تو آپ کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

’اس طرح کی ٹیکنالوجی کا مطلب ہے آپ جہاں بھی جائیں کسی بھی وقت آپ کا پیچھا اور شناخت کی جا سکتی ہے۔ یہ ہمارے کسی جگہ اکھٹے ہونے، پرائیویسی اور گم نام رہنے کی ہماری خواہش کے حق میں مداخلت ہے۔ یہ ایسے سسٹمز ہیں جو آپ کے رویے، صنف، عمر اور نسل کی بنا پر آپ سے متعلق مفروضے گھڑ سکتے ہیں۔‘

امریکہ کے ویڈیو نگران تحقیقاتی ادارے آئی پی وی ایم کے حالیہ جائزے کے مطابق روسی یا روس کی حمایت یافتہ چار کمپنیوں ایگزون سوفٹ، ٹیوین، ویژن لیب سینڈ اور این ٹیک لیب نے ایسے سسٹم تیار کر لیے ہیں کہ اب وہ چہروں کو نسلی بنیاد پر الگ الگ شناخت کر سکتے ہیں۔ ہر کمپنی نے یہ صلاحیت رکھنے کا اعتراف کیا مگر جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ صلاحیت حادثاتی طور پر وجود میں آئی یا یہ ختم کر دی جائی گی یا استعمال ہی نہیں کی جائے گی۔

تاہم ایسے سسٹمز جو کسی مخصوص نسلی گروہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں ان کی محض موجودگی ہی دنیا بھر کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے پروگرام انسان کے تخلیق کردہ الگورتھمز کے مطابق کام کرتے ہیں اور وہ جن واچ لسٹوں اور کوائف کے ملاپ سے چلتے ہیں وہ بھی انسانوں کے تیار کردہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ انسان شعوری یا لا شعوری طور پر متعصب ہیں تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

لندن میں موجود پرائیویسی انٹرنیشنل کے ایڈوکیسی ڈائریکٹر ایڈن اومانوک کہتے ہیں ’یہ حقائق ان سسٹمز میں تیار ہونے والے گھٹیا نسلی تعصب کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ایسے بے ضرر حفاظتی آلات جنہیں غلط استعمال کیا جا سکتا ہو ان کے بجائے یہ انسان کے بعض مہلک ترین خیلات اور مقاصد سے لیس ہیں جو نسلی امتیاز کے لیے بنائے گئے ہیں۔‘

ویژن لیبز کے گلوبل سیلز ڈائریکٹر آنٹن نزر کن نے میرے سامنے خود تصدیق کی کہ ان کا سسٹم سفید فام، سیاہ فام، انڈین اور ایشیائی باشندوں میں فرق کر سکتا ہے لیکن اس کا مقصد ان گروہوں سے امتیازی سلوک نہیں بلکہ اپنے گاہکوں کی بالکل درست ضرورت پوری کرنے کا فرض ادا کرنا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’کمپنی نے آج تک نسلی بنیادوں پر شناخت کرنے والے‘ فنکشن کی مدد سے اپنی کسی چیز کی فروخت ریکارڈ نہیں کی۔‘

 ویژن لیبز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے تمام مصنوعی ذہانت کے سسٹم تعین کر سکتے ہیں کہ ’کیا چہرے کا تاثر مخصوص جذبات کی وسیع ترجمانی کے اظہار سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔‘ ان میں غصہ، نفرت، خوف، خوشی، حیرت اور اداسی شامل ہیں۔

نزارکن کہتے ہیں ’چہرہ شناسی کے سسٹمز کے متعلق بہت سے احمقانہ سوالات پوچھے جاتے ہیں کیونکہ بہت کم لوگ انہیں سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر میری بیوی آج صبح مر جاتی ہے اور دوپہر کے وقت ممکن ہے میں آپ کے پاس سے گزرتے ہوئے مسکرا دوں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں خوش ہوں۔ اس کا مطلب محض یہ ہے کہ میں آپ کی خاطر مسکرا دیا۔‘

’صحافی حضرات ایسا دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ چینیوں کے پاس ایسے سسٹمز ہیں جو اویغور نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو پہچان سکتے ہیں تاکہ ان سے امتیازی سلوک برتا جائے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ درست بات یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے ڈیٹا بیس موجود ہیں جو اویغور نسل کے لوگوں کی شناختیں رکھتے ہیں اور یہ چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔‘

یقیناً یہ بہت باریک فرق ہے۔ مصنوعی ذہانت اور چہرہ شناسی کسی فرد کو بطور اویغور نہیں دیکھتی بلکہ ایک مخصوص شخص کے طور پر اس کی شناخت کرتی ہے جو اویغور نکل آتا ہے۔ لیکن مثال کے طور پر ایک شخص ایسے ملک میں ہم جنس پرست ہے جہاں ہم جنس پرستی ناپسندیدہ یا غیر قانونی ہے اور کیمرے انہیں کسی مشکوک ہم جنس پرستی کے مے خانے میں جاتا ہوا پکڑ لیتے ہیں تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ایک کینہ پرور ریاست ان کو بطور مجرم حراست میں لے سکتی ہے سو اس طرح یہ جابرانہ نظام انہیں بلیک میل کر سکتا ہے یا ان کی پیشہ ورانہ اور نجی زندگیاں تباہ کر سکتا ہے۔ یہی بات دیگر عوامی مقامات پر کیے گئے ‘جرائم‘ پر درست بیٹھتی ہے جہاں نگرانی کا سسٹم کام کر رہا ہو۔

نزارکن کہتے ہیں ’جی ہاں، لیکن روایتی طور پر ایسے مقامات پولیس کی نظر میں ہوتے ہیں اور وہ روایتی طریقوں سے ان کی نگرانی کرتی ہے۔‘

تو کیا یہ ان کا کام مزید آسان بناتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں ’جی ہاں۔‘

چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا کردار محدود کرنے کا مطالبہ کرنے والے مائیکروسافٹ کے صدر بریڈ سمتھ سال 2018 کے اپنے مشہور بلاگ میں کہتے ہیں ’تمام آلات اچھے یا برے مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ حتی کہ ایک جھاڑو بھی فرش صاف کرنے یا کسی کے سر پر ضرب لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

 سو یہاں اس بات کا ذکر بالکل مناسب رہے گا کہ وژن لیبز کی چہرہ شناس ٹیکنالوجی نزارکن مطابق چالیس سے زائد ممالک میں بچوں کو آن لائن حراساں کرنے والوں کی نشان دہی اور لوگوں کے ہجوم سے خطرناک جرائم پیشہ افراد یا قتل کرنے کی نیت سے موجود دہشت گردوں کی تلاش کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔

اپنے بلاگ میں سمتھ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ ٹیکنالوجی بیک وقت آپ کی تصاویر ایک جگہ جمع کر کے خاندان کے بچھڑے افراد کو دوبارہ اکٹھا کرنے میں تعاون کر سکتی ہے یا نجی کمپنیوں اور ریاستی حکام کے ہاتھوں ممکنہ طور پر غلط یا نقصان پہنچانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔

’لیکن دیگر ممکنہ اطلاقات زیادہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ تصور کیجئے حکومت آپ کی اجازت یا علم کے بغیر گذشتہ ماہ ہر وقت آپ کا پیچھا کرتی رہے کہ آپ کہاں کہاں گئے۔ تصور کیجئے کہ ہر اس شخص کے کوائف جمع کر لیے گئے ہوں جس نے سیاسی ریلی میں شرکت کی جو کہ آزادی اظہار کی روح کے عین مطابق ہے۔

’تصور کیجئے کہ شاپنگ مال کی دکانیں چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے آپ سے پوچھے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ معلومات بانٹتی ہیں کہ آپ نے کون کون سا شیلف دیکھا اور کیا خریدا۔ آج سے طویل عرصہ پہلے یہ سائنس فکشن یا مائنارٹی رپورٹ، اینمی آف دا سٹیٹ جیسی فلموں اور حتی کہ 1984 دیکھنے کو ملتا تھا لیکن اب یہ حقیقت کا روپ دھارنے کے بالکل قریب ہے۔

’شاید ہر ایجاد کی طرح چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی ایک تنقیدی سوال اٹھاتی ہے کہ ہم روزمرہ کے معاشرے میں اس طرح کی ٹیکنالوجی سے کیسے کردار چاہتے ہیں؟‘

برطانیہ میں پولیس کے ادارے پہلے سے ہی ایل ایف آر سسٹمز استعمال کر رہے ہیں جس کی مدد سے عوامی مقامات پر چہروں کی بھیڑ میں سے مطلوبہ چہروں کا پیچھا اور نگرانی کی جا سکتی ہے۔ کالج آف پولیسنگ کے مطابق وہ کھیل کے مقابلوں، موسیقی کے پروگراموں، عوامی اجتماعات اور خوفناک طور پر احتجاجی مظاہروں میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔

گذشتہ برس کورٹ آف اپیل نے اپنے تاریخی فیصلے میں ساؤتھ ویلز پولیس کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا جب اس نے کارڈف کے علاقے میں ایل ایف آر سسٹم کی مدد سے لوگوں کی نگرانی اور مشتبہ افراد کی چھان بین کی۔

یہ کیس 38 سالہ مقامی شہری ایڈ بریجز عدالت میں لے کر آئے جنہیں شہری حقوق کی تنظیم لبرٹی کی حمایت حاصل تھی۔ بریجز نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کارڈف کے موٹو پوائنٹ علاقے کے باہر غیر مسلح احتجاج اور شہر کے مرکز سے کرسمس شاپنگ کے کے دوران ان کے علم یا اجازت کے بغیر ان کے بائیو میٹرک کوائف کا تجزیہ کیا گیا جس سے ان کے انسانی حقوق پامال ہوئے۔

گذشتہ برس ساؤتھ ویلز پولیس کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا جب اس نے کارڈف میں مشتبہ افراد کی چھان بین کے لیے ایل ایف آر سسٹم استعمال کیا۔

تاہم عدالتی فیصلہ کسی اخلاقی یا سماجی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض برطانیہ کے کوائف کے تحفظ کے موجودہ قانون کی شرائط کی بنیاد پر تھا جس کے مطابق ایسے سسٹمز کے چلانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ واضح انداز میں تحریری طور پر قلم بند کریں کہ وہ کسے تلاش کر رہے ہیں اور وہ کون سا ثبوت ہے جس سے انہیں لگتا ہے کہ مطلوبہ افراد علاقے میں موجود ہوں گے۔ ان کے لیے احتیاطاً بات یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ استعمال کیے جانے والا سافٹ ویئر نسلی یا جنسی تعصبات سے پاک ہو اور ساؤتھ ویلز کی پولیس ان دونوں میں ناکام رہی۔ لیکن اس پولیس اور دوسروں نے اگر ان شعبوں پر مزید توجہ سے کام کیا ہوتا تو انہیں ایل ایف آر سسٹمز کے استعمال میں کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔

اس فیصلے پر دونوں فریقوں نے خوشی کا اظہار کیا لیکن ایسا لگتا ہے ہارنے والا فریق اس پر زیادہ خوش تھا۔ ساؤتھ ویلز پولیس کے چیف کانسٹیبل میٹ جیوکس کے بقول ’اس ٹیکنالوجی کے ہمارے انقلابی استعمال کا عدالتی جائزہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس کی ترقی کی راہ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ میں پراعتماد ہوں کہ یہ ایسا فیصلہ ہے ہم جس کی روشنی میں مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘

فیصلے کے بعد ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں پولیس حکام نے اپنے چہرہ شناس سسٹمز اچھی طرح تیار کرنا شروع کر دئیے تاکہ وہ ساؤتھ ویلز پولیس کی طرح معمولی پابندی کی مصیبت کا شکار نہ ہو جائیں۔ مثال کے طور پر میٹرو پولیٹن پولیس نے اپنی حکمت عملی واضح کرنے کے لیے ایک دستاویز جاری کی کہ وہ عمومی اور کوائف کے تحفظ کے قانون کے تمام پہلوؤں کی پوری طرح تعمیل کرے گی۔

اس اعلان کے مطابق اس کا ایل ایف آر جو نیو فیس لائیو ریکوگنیشن سسٹم کے نام سے مشہور ہے وہ ’صرف ایسی تصاویر اپنے پاس رکھے گا جنہوں نے خطرہ کی گھنٹی بجائی ہو، یہ اکتیس دن کے لیے رکھی جاتی ہیں یا جب تک گرفتاری نہ کر لی جائے یا کوئی تفتیش یا عدالتی عمل مکمل نہ کر لیا جائے۔ جن افراد سے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو ان کے بائیو میٹرکس کوائف خود بخود اور فوراً ڈیلیٹ کر دئیے جاتے ہیں۔ ایل ایف آر سسٹم سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ریکارڈ کرتا ہے جسے ہم اکتیس دنوں تک اپنے پاس رکھتے ہیں۔‘

شاید معنی خیز انداز میں ادارے نے مزید لکھا ’کوئی بھی شخص ایل ایف آر سسٹم کے سامنے سے نہ گزرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے، یہ کوئی جرم نہیں یا اس سے گریز کرنا کام میں ‘رکاوٹ’ نہیں سمجھا جاتا۔‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ایسے نگرانی والے سسٹم کے سامنے والے میدان سے محض گزرنا بھی رضامندی کی دلیل سمجھی جائے گی۔

پولیس کے اس نئی نگران ٹیکنالوجی کے استعمال کے غیر جانبدار نگران پروفیسر فریزر سیمپسن ہیں جو بائیو میٹرکس اور نگرانی کے لیے لگے کیمروں کے کمشنر، ایک انتہائی باصلاحیت سابق پولیس آفیسر اور قانون دان ہیں جو اپنا کام نہایت مہارت سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بطور بائیو میٹرکس کمشنر ان کا کام اس عمل کی نگرانی ہے کہ پولیس ڈی این اے اور فنگر پرنٹس کیسے حاصل کرتی، اپنے پاس محفوظ کرتی اور پھر ڈیلیٹ کرتی ہے۔ لیکن پولیس کی بائیو میٹرک مواد جمع کرنے کی نئی خواہش کے پیش نظر نگرانی کے دوران حاصل کردہ تصاویر کا جائزہ لینا ان کے لیے نیا مسئلہ ہے۔

وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ’پولیس کے اداروں کے پاس ایسے مشتبہ افراد کی کثیر تعداد میں تصاویر ہیں جن کے خلاف کاروائی شروع تو کی گئی لیکن باقاعدہ فرد جرم عائد نہ کی جا سکی۔ یہاں ایسے افراد کے ڈی این اے اور فنگر پرنٹس، حتی کہ ان کے جوتوں کے تلوؤں سے حاصل کردہ پرنٹس کے متعلق تو قانون موجود ہے لیکن حیران کن طور پر ان کے چہرے کی تصاویر مٹانے کے متعلق کوئی قانون نہیں۔

’تصاویر کا معاملہ سرکاری طور پر میرے دائرہ کار میں نہیں آتا لیکن اداروں سے پوچھتا رہتا ہوں کہ انہیں خودبخود ڈیلیٹ کرنے یا عوام کو اس حقیقت سے خبردار کرنے کے لیے کہ وہ انہیں ڈیلیٹ کرنے کا کہہ سکیں، ان کی کیا پالیسیاں ہیں اور میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ کوئی ہمہ گیر پالیسی موجود نہیں۔ تاریخی طور پر پولیس میں یہی طریقہ رائج رہا ہے کہ انہیں نادانستہ طور پر ڈیلیٹ نہ کرنا ایک فطری عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے یا دیکھا جاتا رہا ہے جبکہ دراصل ایسا نہیں ہے، وہ ویسی ہی برقرار رہتی ہیں۔

’تو اگر پولیس کا کوئی ارادہ پرانی تصاویر کو ڈیجیٹل شکل میں بدلنے کا فیصلہ کرے (پولیس کے مطلوبہ افراد کے تیار کردہ خاکے جن پر کبھی فرد جرم عائد نہ کی جا سکی ہو) اور پھر چہرہ شناس نگران کیمرے قصبات کے مراکز میں نصب ہوں تو کیا یہ معاملہ مخصوص جرائم میں مطلوب افراد کو نمایاں کرنے کا باعث بن سکتا ہے؟‘

سیمپسن نے وزرا کو سرعت سے کام لیتے ہوئے ان کی ذمہ داریاں اور اختیارات حالات کے تقاضوں کے مطابق بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بطور بائیو میٹرکس کمشنر ان کا کردار پروٹیکشن آف فریڈم ایکٹ 2012 کے تحت متعین کیا گیا تھا؛ ان کا ثانوی کردار بطور نگران کیمرہ کمشنر 2013 میں سرویلنس کیمرہ کوڈ کے ذریعے متعین کیا گیا تھا۔ اُس وقت تک سی سی ٹی وی میں ڈیجیٹل بائیو میٹرک مصنوعی ذہانت کی چہرہ شناس خصوصیات شامل نہیں ہوئی تھیں۔

 یورپین ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ اور یورپین ڈیٹا پروٹیکشن سپروائزر کے مصنوعی ذہانت کے استعمال اور عوام کی چہرہ شناسی پر پابندی کا مطالبہ یورپین کمشن کے اپریل میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایکٹ کی دستاویز کے اجرا کے بعد مشاورتی عمل کے طور پر سامنے آیا۔

اگر اسے نافذ کر دیا گیا تو یہ قانون ہر اس کمپنی یا ادارے پر لاگو ہو گا جو یورپی یونین کے اندر کام یا اس کے ساتھ تجارت کرنا چاہے گا۔ یہ ہر اس مصنوعی ذہانت پر پابندی عائد کر دے گا جو:

  • مبہم طریقوں کے استعمال سے کسی شخص کا استحصال جو نفسیاتی یا جسمانی نقصان کا باعث بن سکتا ہو۔
  • لوگوں کے کسی گروہ کی عمر، جسمانی یا ذہنی معذوری کے باعث ان کی کمزوریوں کا اس طرح سے استحصال کہ جو نفسیاتی یا جسمانی نقصان کا باعث بن سکتا ہو۔
  • حکومتوں کو ’سوشل کریڈٹ سکورنگ‘ کے عام مقاصد کے استعمال کی اجازت دیتا ہو۔
  • مخصوص محدود مدتی عوامی حفاظتی اقدامات کے سوا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوامی اجتماعات کے مقامات پر خودکار بائیو میٹرک شناخت کی سہولت میسر کرتا ہو۔

پہلے ہی پرائیویسی کی مہم چلانے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ کافی نہیں کیونکہ مجوزہ قانون ہر قسم کی عوامی نگرانی پر پابندی عائد نہیں کرتا بلکہ مخصوص قسم کی نگرانی کو ‘شدید خطرناک‘ کہتا ہے جس کا مطلب ہوا بائیو میٹرک شناخت کے ساتھ مصنوعی ذہانت کی دیگر بے ضرر قسمیں زیادہ سختی سے نافذ کرنے کی اجازت ہو گی (جیسا کہ دانستہ طور پر سرحد پار کرنے کے لیے آپ کی بائیو میٹرکس کا استعمال جس سے ثابت ہو گا کہ آپ کون ہیں اور اسی طرح بہت ساری چیزیں)۔

یورپین ڈیٹا پروٹیکشن سپروائز ویووروسکی نے مجھے بتایا کہ یورپین ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ کے ساتھ ان کا مشترکہ احتجاج مشاورتی عمل کا حصہ تھا اور ممکنہ طور پر یہ کئی ماہ تک جاری رہے گا۔

ان کے بقول ’ہمارا بیان بذات خود ٹیکنالوجی اور اس کی ایجادات کے متعلق نہیں تھا۔ ہم نے اس لیے ایسا کہا کیونکہ ہم عوامی مقامات پر اس کے (مصنوعی ذہانت کی مدد سے عوام کی بائیو میٹرک نگرانی) استعمال کے متعلق بہت محتاط ہوں گے جہاں لوگ اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ ان کا مشاہدہ، نگرانی اور شناخت کی جا رہی ہے۔ یہ بالآخر شاہراہوں کی پرائیویسی اور گم نامی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔

’ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمیں پابندی سے آغاز کرنا چاہیے اور اس کے بعد ہم اسستثنا کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، بلا کم و کاست تحریر کرتے ہوئے کہ یہ کن مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے اور کونسی ناگزیر حالتیں ہیں جن میں اس کا استعمال درست ہو گا۔‘

پولینڈ کے باشندے ویووروسکی نے پولینڈ میں عدالتی نظام کے لیے تجویز کردہ تبدیلیوں کے خلاف ججوں کے مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مستقبل کی عوامی نگرانی قانون دانوں کو شناخت کر چکی ہوتی اور نتیجتاً بات ان کی برطرفی تک جا پہنچتی۔

 وہ کہتے ہیں اسی طرح چینی حکام کی طرف سے ایسے سسٹمز کا استعمال ہانگ کانگ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی مخالفت میں رکاوٹ کا سبب بنا۔

ویووروسکی نے برطانوی انفارمیشن کمشنر الزبیتھ ڈین ہیم (کوائف اکھٹا کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والے نگران) کے ایل ایف آر کے استعمال پر جون میں شائع ہونے والے سرکاری موقف پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ان کے اس پر پابندی کے مطالبے کی جھلک نظر نہیں آئی۔

ان کے موقف کے مطابق کوئی بھی تنظیم جو ایل ایف آر کا برطانیہ میں استعمال کرنا چاہتی ہے اسے ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2018 اور یوکے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کی تعمیل کرنا ہو گی جو اب ہوبہو یورپی یونین کے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کی طرح ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی، غیر جانبداری، ایمانداری، مواد کے ایک ہی مجوزہ مقصد کے لیے استعمال، کم سے کم کوائف، محدود پیمانے پر اندراج، تحفظ اور جواب دہی کی ضمانت فراہم دیتے ہیں۔

ان کے موقف کے مطابق ‘اداروں کو ابتدا سے ہی حکومت اور احتساب کے بلند معیارات برقرار رکھنا ہوں گے جس میں یہ قابلیت بھی ضروری ہے کہ ایل ایف آر کا استعمال غیر جانبدارانہ، ضروری اور اپنے نافذ کردہ پس منظر میں متناسب ہو۔ انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ اس سے کم دخل اندازی والے طریقے ناکافی تھے۔ یہ اہم معیارات ہیں جو گہرے اندازے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

’اداروں کو مداخلت کرنے والی ٹیکنالوجی کے استعمال کے خطرات اور اس کے لوگوں کی پرائیویسی اور زندگیوں پر ہونے والے اثرات سمجھنے اور اندازہ لگانے کی بھی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کس طرح صداقت اور تعصب سے پیوستہ مسائل غلط شناخت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرے یا نقصان کی طرف لے جاتے ہیں۔‘

تاہم اس موقف کے ساتھ شائع ہونے والے اپنے بلاگ میں ڈین ہیم نے بہت واضح طور پر اپنے خوف کا اظہار کیا کہ کس طرح ٹیکنالوجی غلط استعمال کی جا سکتی ہے اور انہوں نے اپنے شعبے کی تحقیق کے پیش نظر ایل ایف آر سسٹمز کی افادیت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’مجھے ایل ایف آر ٹیکنالوجی کے غلط، بکثرت اور لاپرواہی سے ممکنہ استعمال پر شدید تحفظات ہیں۔ جب لوگوں کے علم، مرضی یا اختیار کے بغیر حساس نوعیت کا مواد بڑے پیمانے پر اکٹھا کیا جاتا ہے تو اس کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں۔

‘ہم نے جس طرح کے استعمالات دیکھے ان میں عوامی تحفظ کے معاملات سے نمٹنا اور نجی نوعیت کے اشتہارات کے لیے بائیو میٹرک پروفائلز تیار کر کے لوگوں کو ہدف بنانا شامل ہے۔

’یہ بات اہم ہے کہ ہماری تحقیق میں شامل تنظیموں میں سے کوئی ایک بھی اس عمل کو پوری طرح قابلِ جواز ثابت نہیں کر سکی اور براہ راست استعمال ہونے والے سسٹمز میں سے کوئی ایک بھی پوری طرح ڈیٹا پروٹیکشن قانون کے مطابق نہیں تھا۔ تمام تنظیموں نے ایل ایف آر کا استعمال روک دیا یا سرے سے شروع ہی نہیں کیا تھا۔

’سی سی ٹی وی کے برعکس ایل ایف آر اور اس کے الگورتھمز خودکار طریقے سے آپ کی شناخت کر سکتے ہیں اور آپ سے متعلق حساس جزیات کا اندازہ لگانے لگتے ہیں۔ یہ آپ کی پروفائل کے مطابق نہایت سرعت سے آپ کی پسندیدہ اشیا کے اشتہارات پیش کر سکتا ہے یا دکان لوٹنے والے معروف چوروں سے آپ کی تصویر اس لیے ملا سکتا ہے کہ آپ ہفتہ وار سودا سلف لینے اس دکان پر آتے تھے۔

’مستقبل میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے ایل ایف آر سے منسلک کر دئیے جائیں اور حتی کہ اسے سوشل میڈیا کے کوائف یادیگر ‘کوائف کے اہم مآخذات‘ سے بھی جوڑا جا سکتا ہے، ایل ایف آر سی سی ٹی وی کی انتہائی تیز رفتار شکل ہے۔‘

سو اگر انہیں براہ راست چہرہ شناس سسٹمز سے اتنی ہی تشویش ہے تو میں نے ڈین ہیم سے پوچھا کہ کس لیے انہوں نے اپنے دیگر یورپین ہم منصبوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ نہیں کیا؟ ان کا جواب تھا ‘یہ کمشنر کے دفتر کا کام نہیں کہ وہ نئی ٹیکنالوجیوں کی تائید کرے یا پابندی لگائے۔ لیکن دوسروں کی طرح ہم نے بھی اس معاملے اور ان حفاظتی اقدامات کی اہمیت کو سمجھا جو ایل ایف آر ٹیکنالوجی کی بے لگام ترقی اور لوگوں کے اعتبار اور اعتماد کو ٹھیس پہنچنے سے قبل کیے جانے ضروری ہیں۔

’انفارمیشن کمشنر آفس کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کے تحفظ کے لیے ڈیٹا پروٹیکشن قانون کی عملداری یقینی بنانا ہے۔ ہم اس کے مطابق چلنے کے لیے اداروں اور کمپنیوں کو بطور تعاون رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور ہم واضح کرتے ہیں کہ نجی معلومات کے استعمال کے لیے مختلف حالات میں قانونی اطلاق کیسے ہوتا ہے اور جہاں قانونی معیار کا خیال نہ رکھا جا رہا ہو وہاں ہم زبردستی قانون نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

ڈین ہیم کے انتباہ کا وقت بہت اہم ہے۔ برطانوی حکومت کی قائم کردہ انوویشن، گروتھ اینڈ ریگولیٹری ریفارم ٹاسک فورس نے بریگزٹ کے زبردست حامی سر سر این ڈنکن سمتھ کے زیر قیادت مئی میں اپنی رپورٹ جاری کی جس میں آپ کے ذاتی کوائف کو دوسروں سے بچا کر رکھنے کے بجائے ایک ایسی چیز بتایا گیا جس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

رپورٹ جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کے تحت آپ کی معلومات بانٹنے میں آپ کی رضامندی جیسی حفاظتی سہولیات ختم کر کے ان کی جگہ بعض ایسے اقدامات کی تجویز پیش کرتی ہے جن سے کوائف ‘زیادہ سہولت کے ساتھ گردش کرنے لگیں.‘

رپورٹ کارپوریٹ منافع کے نام پر آپ کے حقوق چھیننے کے حکومتی ارادے کو چھپانے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرتی۔ اس کے مطابق ‘صارفین کے کوائف انتہائی منافع بخش اور بذات خود ایک کرنسی ہیں۔ گاہوں کے کوائف کی ہوبہو قدر و قیمت کا تعین کافی مشکل ہے، ایک جائزے کے مطابق انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ایک فرد کی ای میل 89 ڈالرز کی قیمت رکھتی ہے اور امریکہ کے ایک متوسط درجے کے شہری کے تمام کوائف دوہزار سے تین ہزار ڈالرز کے برابر ہیں۔

’کوائف اکھٹے کر کے بیچنے والوں کی ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری ہے جہاں مختلف کمپنیاں صارفین کے کوائف جمع کر کے دیگر کمپنیوں کو بیچ دیتی ہیں۔ جائزوں کے مطابق اوسطاً گوگل پرسنل ڈیٹا میں فی صارف کے لحاظ سے تقریباً ورلڈ ڈاکومنٹ کے تیس لاکھ صفحات اور فیس بک فی صارف کے لحاظ سے چار لاکھ صفحات رکھتی ہے۔

’جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن چھوٹی کمپنیوں اور خیراتی اداروں کو چلانے کے معاملے میں قانون پر کاربند، غیر لچکدار اور خاص طور پر آہنی ہاتھوں سے نبٹتا ہے۔ کوائف جمع کرنا، اپنے پاس محفوظ رکھنا اور پھر انہیں تیار کرنے سے ڈیلیٹ کرنے تک اتنی بڑی مقدار میں کوائف منظم کرتے ہوئے ضروری اقدامات کرنا اداروں کے لیے کافی مشکل امر ہے۔ خیراتی اداروں، چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے لیے قانونی تقاضے کا بوجھ ہلکا اور زمہ داریاں کم ہونی چاہئیں جبکہ ویسے قوانین کی پاسداری کا تناسب بڑھنا چاہیے۔ جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن میں اصلاحات ڈیجیٹل اکنامی کی ترقی کی رفتار بڑھا سکتی ہیں اور لوگوں کو قانونی تقاضوں کی بھاری ذمہ داریوں سے چھوٹ دے کر اس کی افادیت اور ان کی زندگیاں بہتر بنا سکتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن شہریوں کے اپنے کوائف پر ملکیت اور اداروں کے لیے کسی شخص کے کوائف استعمال کرنے کی عمومی ضرورت میں اس کی ‘رضامندی‘ کے اصول پر کھڑی ہے۔ اس کے علاوہ کوائف استعمال کرنے کے دیگر متبادل طریقے بھی موجود ہیں جن میں رضامندی درکار نہیں ہوتی۔‘

فی الحال یہ ہے وہ مقام جہاں ہم کھڑے ہیں۔ ایک طرف پولیس کے ادارے ہیں جو لوگوں کے علم یا اجازت کے بغیر گلیوں میں بے گناہ لوگوں کے کوائف اکھٹے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت ہے جو نجی کوائف عام کرنے کے لیے اجازت کو تکلیف دہ یا کم سے کم ایک ناگوار امر سمجھتی ہے۔

یورپی یونین کے شہری ممکنہ طور پر چہرے اور دیگر بائیو میٹرک شناختوں کے سسٹمز کے خلاف ہم برطانوی باشندوں کی نسبت زیادہ حفاظتی اقدامات سے فیض یاب ہوں گے، گو اگر ہم یورپی یونین کے ساتھ کوائف بانٹنے سے متعلق کسی بھی قسم کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شاید مستقبل میں کسی مقام پر ان کے مصنوعی ذہانت اور بائیو میٹرکس قوانین کو قبول کرنا پڑے گا۔

اگر ایسا ہو جاتا ہے تو آپ (مگر ممکنہ طور پر این ڈنکن سمتھ نہیں) یورپین کمیشن کی نامعلوم بیوروکریسی کے شکر گزار ہوں گے جنہوں نے ایسے قوانین تیار کیے جو ہمیں برطانیہ میں چہرہ شناسی کی بڑھتی ہوئی بدترین نگرانی سے بچانے کا باعث بنے۔

اگر یہ بہت افسوس ناک نہ ہوا تو مضحکہ خیز ہوں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی