افغان عوام کو ہماری مدد کی ضرورت ہے

افغان لڑکیوں اور عورتوں کی قسمت اور حقوق ایک کچے دھاگے سے بندھے ہیں۔

ایک سماجی کارکن دو اگست، 2021 کو کابل کے ایک ہال میں  طالبان کی جانب سے خواتین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سے متعلق اجتماع سے خطاب کر رہی ہیں (اے ایف پی)

سال 1996 میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو خواتین کو تعلیم اور روزگار سے محروم کر دیا گیا، وہ صحت کے مراکز نہیں جا سکتی تھیں اور انہیں برقع پہننے پر مجبور کیا گیا- یہ برطانیہ کی طرح یہاں دستیاب انتخاب کا اختیار نہیں تھا۔

طالبان اب ماضی کے مخالفین کی حمایت حاصل کرکے یہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کے وہ تبدیل ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ خواتین ملازمتیں اور تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور یہ کہ یہ اسلامی اصولوں اور افغان روایات کے مطابق ہے۔ اس کے باوجود، طالبان کے پاس کیا درست ہے اس کی اپنی تشریح موجود ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ ’جن علاقوں پر وہ قابض ہوچکے ہیں وہاں سے مظالم رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔‘

محکومی کے خطرے سے دوچار افغان خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نظریاتی طور پر بالکل تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔

امریکہ کے 11 ستمبر، 2021 تک اپنی افواج اور اتحادی ممالک کا مکمل انخلا ان لوگوں کے لیے کیا مطلب رکھتا ہے جو اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے گئے ہیں؟

امن معاہدے پر اکسانے کی متعدد ناکام کوششیں ہوئیں، اور جب سے دسمبر 2020 میں مذاکرات کو آگے بڑھانے کی بنیاد پر کوئی معاہدہ طے پایا، تب سے امن مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

اس سے قطع نظر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یقین ہے کہ افغانستان میں ان کی مہم کے اصل مقاصد حاصل ہوچکے ہیں اور اب عسکری موجودگی مناسب نہیں ہے۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔

ہم سب کو معلوم تھا کہ فوجی انخلا ہوگا، لیکن یہ جس طریقہ سے کیا جا رہا ہے میں اس سے اختلاف رکھتی ہوں۔

ایک طویل عرصے سے میں ایک نوجوان افغان خاتون کی سرپرستی کر رہی ہوں جس کا خاندان طالبان سے بھاگ گیا تھا۔ شادیوں میں خفیہ طور پر کپڑے پہننے سے لے کر تشدد سے بچنے کے لیے چھپنے تک، یہ خاندان برطانیہ میں آباد ہونے سے پہلے پانچ ممالک سے گزر کر یہاں پہنچا۔

یہ خاندان چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں موجود خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ وہ خوف زدہ ہیں کہ جیسے جیسے طالبان مزید علاقوں پر قابض ہوں گے، لاکھوں لڑکیوں اور خواتین کو ظلم اور تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک بیٹی نے کہا: ’جب طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تو انہوں نے ہمیں تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ہمارے سکول جانے پر پابندی لگا دی کہ کہیں ہم مضبوط اور رہنما نہ بن جائیں۔‘

دو دہائی قبل طالبان اقتدار کے خاتمے کے بعد سے، لڑکیوں کی تعلیم میں اس وقت پیش رفت ہوئی جب بین الاقوامی امداد نے سکولوں کی تعمیر اور سیکھنے تک محفوظ رسائی کو ممکن بنایا۔ یہ بہترین نہیں تھا لیکن کم از کم یہ صحیح سمت میں ایک قدم تھا۔

مئی 2021 میں کابل میں سید الشہدا ہائی سکول پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 85 افراد ہلاک ہوئے جن میں کئی طالبات بھی شامل تھیں جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے پرعزم تھیں۔

یہ ایک اور نشانی ہے کہ طالبان کا کنٹرول لڑکیوں اور عورتوں پر غیرمتناسب طور پر اثر انداز ہوتا ہے، خاص طور پر جو اپنے لیے ایک روشن مستقبل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

لبرل ڈیموکریٹس کے رہنما سر ایڈ ڈیوی نے کہا: ’جیسا کہ طالبان کابل کا قبضہ لے رہے ہیں، لاکھوں خواتین اور لڑکیاں ناانصافی، عدم مساوات اور بربریت کے نئے دور کے امکان کا سامنا کر رہی ہیں جبکہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کی ایک نئی صورت اختیار کر رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2001 میں یہ 9/11 القاعدہ کی زیرقیادت حملے تھے جنہوں نے بش انتظامیہ کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑنے اور افغان خواتین کے حقوق اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے طالبان کے خلاف لڑائی کا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔

بعد کی باراک اوباما انتظامیہ کے دوران، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے افغانستان کے بارے میں ایک پالیسی تقریر میں کہا کہ طالبان کو القاعدہ کو مسترد کرنے یا ’نتائج کا سامنا‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

امن جرگہ کے لیے افغان خواتین کی اہم شراکت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ اگر خواتین کو خاموش یا پسماندہ کیا گیا تو پائیدار امن کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔‘

مغربی بیانیے کا زیادہ تر حصہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار اور انہیں معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر بااختیار بنانے کی جنگ پر مرکوز ہے۔

اگر برطانیہ کی حکومت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور طالبان مضبوط ہو جاتے ہیں تو ہم افغان عوام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔

افغان لڑکیوں اور عورتوں کی قسمت اور ان کے حقوق ایک کچے دھاگے سے بندھے ہوں گے۔


رابینہ خان ایک لبرل ڈیموکریٹ کونسلر ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ