طالبان دل جیتیں اور قانونی حیثیت حاصل کریں: اشرف غنی

افغان صدر اشرف غنی نے فیس بک پر اپنے پیغام کا آغاز عزیز ہم وطنو سے کیا اور لکھا کہ ’آج مجھے ایک مشکل انتخاب کرنا پڑا۔

افغان صدر اشرف غنی ملک چھور کر تاجکستان روانہ ہو گئے ہیں(اے ایف پی فائل)

افغان صدر اشرف غنی نے ملک چھوڑکر جانے کے بعد اپنے پہلے فیس بک پیغام میں افعانستان کے لوگوں کو مخاطب کر کے اپنے فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا ہے اور طالبان کو عوام کے دل جیتنے کی تاکید کی ہے۔

انہوں نے فیس بک پر اپنے پیغام کا آغاز عزیز ہم وطنو سے کیا اور لکھا کہ ’آج مجھے ایک مشکل انتخاب کرنا پڑا۔ مجھے ان مسلح طالبان کا سامنا کرنا تھا جو محل میں داخل ہونا چاہتے ہیں یا پھر اس ملک کو چھوڑنا تھا جس کی میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ 20 سالوں کے دوران حفاظت اور پرورش کی۔‘

اگر اب بھی بے شمار ہم وطنوں کو شہید کیا گیا تو انہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور کابل شہر تباہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں 60 لاکھ آبادی والے شہر میں بڑی انسانی تباہی ہوگی۔‘

اشرف غنی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ’طالبان نے یہ سب اس لیے کیا کہ وہ مجھے بے دخل کرنا چاہتے تھے وہ یہاں اس لیے ہیں کہ وہ پورے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ خونریزی کے سیلاب کو روکنے کے لیے میں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘

طالبان نے تلوار اور بندوق کا فیصلہ اپنے حق میں کر لیا ہے اور اب وہ اپنے ہم وطنوں کی عزت اور جائیداد کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔

اشرف غنی کے مطابق طالبان کو اب تاریخی امتحان کا سامنا ہے، یا تو وہ افغانستان کے نام اور عزت کو محفوظ رکھیں گے یا دوسری جگہوں اور نیٹ ورکس کو ترجیح دیں گے۔

افغان صدر اشرف غنی جنہیں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سابق کہہ چکے نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے کہ ’بہت سے لوگ اور بہت سے طبقے خوف میں ہیں اور انہیں مستقبل پر کوئی یقین نہیں ہے۔‘

انہوں نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کے تمام لوگوں، نسلوں، مختلف طبقات، بہنوں اور خواتین کے دل جیتیں اور اپنی قانونی حیثیت حاصل کریں۔


کابل: طالبان کا صدارتی محل پر کنٹرول حاصل کرنے کا دعوی

 

افغان طالبان اتوارکو دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ مکمل اقتدار چاہتے ہیں ایسی صورتحال میں مغرب کے حمایت یافتہ صدر اشرف غنی ملک سے چھوڑ چکے ہیں۔

عسکیت پسند گروپ کے دو اعلی حکام نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ملک بھر میں ان کی تیز رفتار فتوحات کی وجہ سے 20 برس بعد پھر دارالحکومت پہنچے ہیں اور اب ملک میں کوئی عبوری حکومت نہیں ہوگی۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے دو اعلی طالبان کمانڈرز کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان جنگجو کابل میں صدارتی محل میں داخل ہوگئے ہیں اور اس کا انتظام سنبھال لیا ہے لیکن افغان حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ادھر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی طالبان کے تین اعلی عہدیداروں کے حوالے خبر دی ہے کہ انہوں نے صدارتی محل پر قبضہ کر لیا ہے۔

ایک اعلی طالبان کمانڈر نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’جنگجو صدارتی محمل میں داخل ہوگئے ہیں۔‘ 

ایک اور کمانڈر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’طالبان صدارتی محل میں داخل ہوگئے ہیں اور اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی کے معاملے ایک اجلاس صدارتی محل میں ہی ہو رہا ہے۔

دوسری جانب امریکی سفارتکاروں کو امریکی فوج کی خفاظت میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سفارتخانے سے نکال کر ہوائی اڈے پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ مقامی اۓغان فورسز اس موقع پر بے بس نظر آئیں جن کی تربیت پر کافی عرصے سے اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کے بارے میں اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ وہ تاجکستان روانہ ہوگئے ہیں لیکن تاحال ان کی منزل کے بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ تاہم اس بات کی تصدیق ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کی ہے کہ اشرف غنی نے افعانستان چھوڑ دیا ہے۔

افغان وزارت داخلہ کے اعلی حکام نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ کابل میں چند مقامات پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں۔

کابل کے ہسپتال کا کہنا ہے کہ 40 سے زیادہ زخمیوں کو نواحی علاقوں میں ہونے والی چھڑپوں کے بعد لایا گیا ہے جن کا علاج کیا جا رہا ہے۔

یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ منتقلی اقتدار کا عمل کب اور کیسے مکمل ہوگا۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مغرب نواز حکومت کے پر امن طور پر دستبردار ہونے کے منتظر ہیں۔


افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے اپنے ٹویٹر پیغام میں طالبان کو کابل کے اندر داخل ہونے اور شہر کا نظام سنبھالنے کا حکم جاری کیا ہے۔

امارات اسلامیہ افغانستان کے ترجمان کے اس بیان کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شیئر کیا ہے۔ تاہم جنگجوؤں کو یہ تنبیہ کی گئی ہے شہر میں کسی کی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی گھروں میں موجود شہریوں کو تنگ گیا جائے۔ 


افغان رہنماؤں کا وفد اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کرے گا

افغانستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور قائدین کا وفد کابل سے پاکستان پہنچ گیا ہے۔

یہ وفد غیر پشتون سیاسی رہنماوں پرمشتمل ہے۔ وفد تین دن تک پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورت حال پر مشاورت کی جائے گی۔

افغان وفد میں شامل رہنماؤں میں سابق اول نائب صدر محمد یونس قانونی سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔

اس کے علاوہ محمد کریم خلیلیہیں جو سربراہ حزب وحدت السلام ہیں، احمد ضیا مسعود سابق اول نائب صدر، محمد محقق سربراہ جذب وحدت مردم افغانستان و سلامتی مشیر صدر اشرف غنی، احمد ولی مسعود چیئرمین مسعود فاونڈیشن، خالد نور، صلاح الدین ربانی سابق وزیرخارجہ، سپیکر ویلیسی جرگہ رحمان رحیمی شامل ہیں۔

محمد صادق نے ٹویٹ میں کہا کہ افغان وفد کے دورہ پاکستان کے دوران ’باہمی دلچسپی کے امور‘ پر بات چیت ہوگی۔


افغان صدر اشرف غنی تاجکستان روانہ: وزارت داخلہ

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ایک اعلی اہلکار نے بتایا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اتوار کی شام تاجکستان روانہ ہوگئے ہیں۔

اس بارے میں صدر کے دفتر نے یہ کہہ کر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا کہ اشرف غنی کی نقل و حرکت کے بارے میں سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر کوئی بات نہیں کر سکتے۔

اس سے قبل کابل میں داخل ہونے والے طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ گروپ اشرف غنی کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے۔

اپنے فیس بک پیج پر جاری کیے جانے والے ویڈیو پیغام میں افغانستان کی ہائی کونسل آف نیشنل ری کنسیلی ایشن کے چیئر مین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے صدر اشرف غنی کے افغانستان چھوڑ جانے کی تصدیق کی ہے اور اسی بیان کو انہوں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر بھی شیئر کیا ہے۔

اپنے اس ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے بارے میں سابق صدر کہہ کرگفتگو کی ہے۔ 


افغان وزیر داخلہ عبدالستار مرزکوال نے اتوار کے روز اعلان کیا ہے کہ ’افغانستان میں عبوری حکومت کو ’پر امن طور پر اقتدار منتقل‘ ہوگا۔

 

یہ اعلان افغان طالبان کے اس اعلامیے کے بعد کیا گیا ہے جس میں انہوں نے منتقلی اقتدار تک وفاقی دارالحکومت کابل میں داخل نہ ہونے کا کہا ہے۔

وزیر داخلہ نے اپنے پہلے سے ریکارڈ کیے گئے بیان کہا ہے کہ ’افغان عوام کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ شہر پر کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا اور اقتدار پر امن طور پر عبوری حکومت کو منتقل ہوگا۔‘


افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں: شاہ محمود قریشی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ نہیں اور وہاں کے مستقبل کا فیصلہ خود افغان شہریوں نے کرنا ہے ناکہ کسی اور نے۔

انہوں نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں اور اس کے موقف کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی یہ پوزیشن سال ہا سال پرانی ہے۔ ’دنیا اور پاکستان ایک پیج پر ہیں اور یہ پیج افغان مسئلے کو پرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے۔

’یہ افغان قیادت کی آزمائش کا وقت ہے۔ افغان عوام امن چاہتے ہیں، وہ استحکام چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں نقل مکانی نہ کرنا پڑے۔‘

شاہ محمود نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ افغان مسئلہ بات چیت سے حل ہو جس کے لیے ’ہماری کوششیں جاری ہیں اور اس عمل میں پاکستان کا حصہ رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے سفارتی رابطے جاری ہیں۔ ’میں عاشورے کے بعد افغانستان کے جتنے ہمسائے ہیں ان سے رابطہ کروں گا تاکہ ہم ایک پر امن حل کی جانب بڑھ سکیں۔ ہمارا ایجنڈا امن و استحکام ہے، افغانستان کی خوش حالی اور خون خرابے سے بچاؤ ہے۔

’میری آج برطانوی وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی ہو گی۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صورتحال لمحہ ب لمحہ بدل رہی ہے لہٰذا ایسے میں ہمیں بڑی ذمہ داری سے کردار ادا کرنا ہے۔

’پاکستان کا کردار مثبت رہے گا۔ ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں، افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کی عوام نے کرنا ہے اور ہم ان کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ کابل میں پاکستان کا سفارت خانہ فعال ہے اور ’ہماری پوری کوشش ہے کہ اگر کوئی پاکستانی شہری وہاں پھنسا ہوا ہے تو اس کی مدد کی جائے۔‘

آج کابل میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی دو پروازوں کے پرواز بھرنے سے روکنے کے معاملے پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ فی الحال اس معاملے سے لاعلم ہیں اور پتہ کریں گے کہ کیا معاملہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمارے وہاں طیارے ہیں تو وہ خیریت سے پرواز کریں گے اور مسافر واپس آ جائیں گے۔‘

ادھر پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے وضاحتی بیان میں کہا کہ دونوں طیارے پرواز کے لیے مکمل تیار تھے جب مخصوص فوجی نقل و حمل کے باعث پروازوں کی اجازت روک دی گئی۔ 

انہوں نے کہا کہ اس فوجی نقل و حمل کے باعث دیگر کئی ائیرلائنز کے جہاز ہوا میں انتظار کرتے رہے۔ 

بیان کے مطابق تاہم چند مخصوص طیاروں کی آمد کے بعد پی آئی اے کا پہلا جہاز پرواز کر چکا ہے۔

’پی آئی اے کا پہلا جہاز پرواز کے لیے تیار ہے اور کچھ دیر میں روانہ ہوجائے گا۔‘


جنگجو کابل میں داخل نہیں ہوں گے: طالبان ترجمان

طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل نہیں ہوں گے اور انہیں شہر کے داخلی راستوں پر انتظار کرنے کا کہا گیا ہے۔

طالبان ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے اپنی ٹویٹ میں پوسٹ کیے جانے بیان میں کہا ہے کہ ’امارات اسلامی نے اپنے تمام جنگجوؤں کو ہدایت کی ہے وہ کابل کے داخلی راستوں پر رک جائیں اور شہر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔‘

طالبان ترجمان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’ہمارے جنگجو شہر میں داخل نہیں ہو رہے اور ہم پر امن طور پر اقتدار کی منتقلی چاہتے ہیں۔‘

پشتو میں جاری کیے جانے والے اس بیان میں عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ سب کو یقین دلایا گیا ہے کہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

دوسری جانب افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان دارالحکومت کابل کے مضافات میں داخل ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کے سے بات کرتے ہوئے تین افغان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ طالبان کابل کے مضافات میں پہنچ چکے ہیں اور انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ان عہدیداروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں یہ معلومات ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

طالبان جنگجوؤں کو کلکان، کراباخ اور پغمان کے اضلاع میں دیکھا گیا ہے۔

طالبان نے ابھی تک کابل میں اپنی موجودگی کا اعتراف نہیں کیا لیکن اتوار کو سرکاری دفاتر سے ملازمین کو وقت سے پہلے گھر روانہ کر دیا ہے جب کہ کابل کی فضاؤں میں ہیلی کاپٹرز کی پروازیں جاری ہیں۔


طالبان کے جلال آباد پر قبضے کے بعد پاکستان نے افغانستان سرحد پر موجود طور خم بارڈر کراسنگ بند کر دی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جانب موجود بارڈر کراسنگ کے طالبان کے قبضے میں جانے کے بعد پاکستان نے طور خم سرحد کو بند کر دیا ہے۔

جلال آباد شہر پر طالبان نے ہفتے کو قبضہ کیا تھا جو کابل جانے والی اہم شاہراہ پر واقع ہے۔


طالبان مزار شریف اور جلال آباد پر قبضے کے بعد افغانستان پر مکمل طور پر قبضہ کرنے کے قریب 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو جلال آباد پر طالبان کے قبضے کے بعد اب افغان حکومتی افواج کا کنٹرول صرف دارالحکومت کابل تک رہ گیا ہے۔

افغانستان کے شہر جلال آباد کے شہریوں کے مطابق طالبان نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ جلال آباد افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کا دارالحکومت ہے۔

 

سوشل میڈیا پر ان دعووں کی تصدیق کرتے ایک صارف احمد ولی نے لکھا ’ہم آج صبح جاگے تو پورے شہر میں طالبان کے پرچم لگے تھے۔ وہ شہر میں بغیر لڑے داخل ہو چکے ہیں۔‘

جلال آباد پر قبضے سے قبل طالبان صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف پر بھی قبضہ کر چکے ہیں۔


ہرات میں طالبان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والے سرکاری اہلکاروں کو ’معافی نامے‘ جاری 

افغانستان کے صوبے ہرات میں ہتھیار ڈالنے والے سرکاری اہلکاروں کو طالبان مختصر اور طویل المدتی ’معافی نامے‘ جاری کر رہے ہیں۔

افغان فوج کے ایک اہلکار احمد شہیدی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ اس معافے نامے کو دکھا کر میں شہر سے باہر جا سکتا ہوں تاکہ مستقبل میں اپنے رہنے کے لیے کوئی محفوظ جگہ تلاش کر سکوں۔

تاہم طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ تین دن کے معافی نامے حاصل کرنے والوں کو اپنے صوبوں میں واپس جا کر ان معافی ناموں کی توسیع کروانی ہو گی۔

 

دوسری جانب افغان حکام کے مطابق ہفتے کو طالبان نے مزید دو صوبوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ کابل کے مضافات تک پہنچ چکے ہیں۔

یاد رہے ہفتے کو افغان صدر اشرف غنی کا اپنی تقریر میں کہنا تھا کہ ملک کی مسلح افواج کو فعال کرنا ان کی ’اولین ترجیح‘ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا جب طالبان افغان فورسز کو پے در پے شکست دے کر متعدد صوبائی درالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے بعد اب کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ 

صدر غنی نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ: ’موجودہ صورت حال میں ہماری سیکورٹی اور دفاعی افواج کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘

توقعات کے برعکس انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ استعفیٰ دیں گے یا موجودہ صورتحال کی ذمہ داری قبول کریں گے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے مشاورت کا عمل جاری ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا