دارالحکومت تبدیل کرنے پر بھی بات ہو رہی ہے: طالبان رہنما

افغان طالبان کے رہنما عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ ’صورت حال میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی کہ تمام لوگ حیران رہ گئے۔ جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو اس کی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی

عبدالقہار بلخی طالبان کے رہنما ذبیح اللہ مجاہد کے ہمراہ ان کی پہلی کانفرنس میں بھی موجود تھے اور ان کے لیے سوالات و جوابات کے ترجمے کر رہے تھے (اے ایف پی فائل)

افغان طالبان کے رہنما اور کلچرل کمیشن کے رکن عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ اس پر بھی بات ہو رہی ہے کہ ملک کا دارالحکومت کابل ہی رہے گا یا پھر طالبان گروپ کی جائے پیدائش قندہار کو دارالحکومت کا درجہ دیا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو الجزیرہ ٹی وی کو دیے جانے والے اپنے انٹر ویو میں کیا ہے۔  

انہوں نے سیاسی حکومت کے حوالے سے کہا ہے کہ صلاح مشورے جاری ہیں اور بلاشبہ اس نظام میں تمام فریق شامل ہوں گے۔

ان کے مطابق: ’ہم بات چیت کر رہے ہیں اور ہمارے درمیان تعلق قائم ہے۔ سکیورٹی انتظامات کے معاملے میں امریکیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ بیرونی چوکیاں ہمارے زیر انتظام ہیں اور داخلی چوکیوں کا کنٹرول امریکہ کی فورسز کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔‘

ہوائی اڈوں خصوصا کابل کے ہوائی اڈے پر پیش آنے والے حالیہ واقعات پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جس طرح لوگ ہوائی اڈے کی طرف بھاگ رہے ہیں یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ صورت حال کہیں بہتر ہونی چاہیے تھی کیونکہ ہم نے ہر کسی کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کے لیے اعلیٰ سے نچلی سطح تک اور خوف اور ہیجان کی جو فضا پیدا ہوئی ہے یہ بے بنیاد ہے۔‘

افغان طالبان کے رہنما عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ ’صورت حال میں اتنی تیزی سے تبدیلی آئی کہ تمام لوگ حیران رہ گئے۔ جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو اس کی پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی کیونکہ ہم نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ ہم کابل میں داخل نہیں ہونا چاہتے۔ ہم کابل میں داخل ہونے سے پہلے سیاسی تصفیہ اورایسی مخلوط حکومت چاہتے تھے جس میں سب شامل ہوں لیکن ہوا یہ کہ سکیورٹی فورسز چلی گئیں اور انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔‘

عبدالقہار بلخی نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا کہ ’ہم اپنی فورسز کو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ کابل میں داخل ہو جائیں۔‘

خواتین کے خقوق کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات اور بچوں کے حقوق کے معاملے میں بھی کوئی ابہام نہیں۔ ’اس وقت ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس کے حوالے سے امید ہے کہ صلاح مشورے کے دوران وضاحت ہو جائے گی کہ یہ حقوق کیا ہیں‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ہماری اولین ترجیح اپنی صفوں میں نظم و ضبط ہے دوسروں پر قانون نافذ کرنا نہیں بلکہ قانون کو پہلے اپنے اوپر نافذ کرنا اور اس کے بعد باقی معاشرے کے لیے مثال پیش کرنا اولین ترجیح ہے۔

ان کے مطابق: ’سب سے پہلے ہماری اور ہمارے ارکان کی باری ہے اور اگر وہ کسی کارروائی میں ملوث پائے گئے تو سب سے پہلے ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔‘

عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ لوگ طالبان کو دہشت گرد خیال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ محض ایک اصطلاح تھی جسے امریکہ نے تراشا اور جو لوگ مطابقت نہیں رکھتے تھے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔


افغانستان میں روس کے سفیر دمتری زیرنوف نے کہا ہے کہ طالبان نے ان کے سفارت خانے سے کہا ہے کہ شمالی افغانستان میں موجود حکومتی حامیوں کو ان کی طرف سے معاہدے کی پیشکش کا پیغام پہنچا دیا جائے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق روسی سفیر نے ہفتے کو بتایا ہے کہ طالبان کی سیاسی قیادت کے ایک اعلیٰ رکن نے روس سے کہا ہے کہ وادی پنجشیر میں جنگجوؤں کو بتائیں کہ طالبان کو امید ہے کہ طالبان علاقے میں صورت حال کے مسئلے کو سیاسی معاہدے کے ذریعے حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

روسی سفارت کار کا کہنا ہے کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ علاقے میں خونریزی نہیں چاہتے۔ واضح رہے کہ وادی پنجشیر افغان دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع ہے اور شمالی اتحاد کے ان مسلح دھڑوں کا مضبوط گڑھ ہے جنہوں نے 2001 کے حملے کے دوران اتحادی فوجوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ وادی پنجشیر افغانستان کا واحد علاقہ ہے جس پر طالبان کنٹرول حاصل نہیں کرسکے۔

کابل اور افغانستان کے دوسرے حصوں پر طالبان کے قبضے کے دوران جن حکومتی شخصیات نے اس علاقے میں پناہ لی ان میں نائب صدر امراللہ صالح بھی شامل ہیں جنہوں نے صدر اشرف غنی کے متحدہ عرب امارات فرار ہونے کے بعد اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ اب وہ افغانستان کے قانونی صدر ہیں۔

ماسکو جس کی افغانستان میں 10 سالہ جنگ 1989 میں فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی، گذشتہ برسوں میں مصالحت کار کی حیثیت سے سفارت سطح پر واپس آیا اور اس نے مختلف افغان دھڑوں کے ساتھ رابطہ کیا جس میں طالبان بھی شامل ہیں۔


فیفا اور فیف پرو افغان فٹبالرز کو نکالنے کے لیے سرگرم

فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کی سیکرٹری جنرل فاطمہ سمورا نے اتوار کو کہا ہے کہ فیفا اور کھلاڑیوں کی یونین فیف پرو ان کھلاڑیوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ایک دوسرے تعاون کر رہی ہیں جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ہفتے طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد سے ہزاروں افراد ملک سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اورلوگوں کو طیارے کے ذریعے نکالنے کے عمل کو تاریخ کا مشکل ترین آپریشن قرار دیا جا رہا ہے۔

سمورا کہنا تھا کہ ’ہم فیف پرو کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ فیفا ماضی میں بھی ایسا کر چکی ہے۔ ہمارے اندر دوبارہ ایسا کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔‘

فیف پرو نے جمعے کو اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ تنظیم ’ان کھلاڑیوں کو نکالنے کا منصوبہ تیار کرنے کی خاطر حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہے جو خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کوششوں کا بنیادی مقصد جتنے زیادہ لوگوں کو ممکن ہو سکے تحفظ فراہم کرنا ہے۔‘

جمعرات کو فٹبال کے کھلاڑیوں کی تنظیم نے افغانستان کی قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑی ذکی انور کو خراج عقیدت پیش کیا جو گذشتہ ہفتے کابل کے ہوائی اڈے پر طیارے سے گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔


کابل ہوائی اڈے پر افراتفری سے مزید سات افراد ہلاک: برطانوی فوج 

 

کابل کے ہوائی اڈے پر اتوار کو طالبان نے افراتفریح پر قابو پانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور لوگوں کو قابو کرنے کے لیے ہوائی اڈے باہر اور اندرقطاریں لگوانا شروع کی ہیں۔

عینی شاہدین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ بھگدڑ مچنے سے کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔

برطانوی فوج نے اتوار کو کہا ہے کہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد افراتفری سے مزید سات افغان شہری ہلاک جبکہ بھگدڑ سے متعدد کچل کر زخمی ہو گئے۔

گذشتہ ہفتے بھی کابل کے ہوائی اڈے پر افراتفری پر قابو پانے کے لیے امریکی اہلکاروں کی ’ہوائی فائرنگ‘ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

روئٹرز کے مطابق اتوار کو نئی ہلاکتیں افغانستان میں داعش گروپ سے جڑے نئے خطرے کے بعد سامنے آئی ہیں جب امریکہ کے متعدد فوجی طیارے طالبان جنگجوؤں سے گھرے ہوائی اڈے پر لینڈنگ کر رہے ہیں۔

یہ طیارے لینڈنگ اور ٹیک آف کے وقت حرارت خارج کرنے والے شاٹس فائر کرتے ہیں تاکہ داعش کی جانب سے گرمی کا تعاقب کرنے والے ممکنہ اینٹی ایئرکرافٹ میزائلوں سے بچا جا سکے۔

امریکی کنٹرول والے ہوائی اڈے کے باہر چوکیاں بنانے والے طالبان کی جانب سے ملک سے فرار ہونے کے لیے کوششیں کرنے افراد کو دور رکھنے کی کوشش میں ہوائی فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں۔

برطانوی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا: ’زمین پر حالات انتہائی سنگین ہیں لیکن ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ صورت حال کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔‘


امریکی شہری کابل کے ہوائی اڈے پر آنے سے گریز کریں: امریکہ

امریکہ نے افغانستان میں اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’ممکنہ سیکیورٹی خطرات‘ کے باعث کابل کے حامد کرزئی ہوائی اڈے پہنچنے سے گریز کریں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل میں امریکی سفارت خانے نے اس انتبائی خطرے کے بارے میں مزید کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔

تاہم وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بعد میں تصدیق کی کہ  صدر جو بائیڈن کے معاونین نے انہیں افغانستان میں ’داعش سمیت دیگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں‘ کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔

ایک ہفتے قبل درالحکومت سمیت تقریباً پورے ملک کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں جانے کے بعد حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر افراتفری کا ماحول ہے جہاں ہزاروں افراد ملک سے نکلنے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہزاروں امریکی اور افغان شہری ہوائی اڈے پر پروازوں کا انتظار کر رہے ہیں اور دیگر ایئرپورٹ کے باہر جمع ہیں۔ پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ طالبان جنگجو اور دیگر عسکریت پسند یہاں پہنچنے والے افراد کو ہراساں اور زد و کوب کر رہے ہیں۔

امریکی سفارت خانے نے الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا: ’کابل ایئر پورٹ کے دروازوں کے باہر ممکنہ سکیورٹی خطرات کی وجہ سے ہم امریکی شہریوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ایئرپورٹ آنے سے گریز کریں اور اس وقت ایئرپورٹ کے دروازوں سے دور رہیں جب تک کہ آپ کو امریکی حکومت کے نمائندوں کی انفرادی ہدایات موصول نہ ہوں۔‘

اتوار کو ہی ٹیلی فون بریفنگ میں کینیڈا کے سینیئر سرکاری عہدے داروں نے ہوائی اڈے کے ارد گرد کے حالات کو ’غیر مستحکم، افراتفری سے بھرپور اور مایوس کن‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کینیڈین فوجیوں نے تقریباً ایک ہزار افغان شہریوں کو ملک سے نکالا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک خطرناک مشن ہے۔‘


ہم بے عزت ہو کر افغانستان سے نکلے: ڈونلڈ ٹرمپ

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کے افغانستان سے فوجیوں کی عجلت میں واپسی کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے امریکی تاریخ میں خارجہ پالیسی کی ’بدترین توہین‘ قرار دیا۔

ریپبلکن رہنما ٹرمپ نے، جن کا 2024 کی انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کا امکان معدوم ہو رہا ہے، بارہا اپنے سابق ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن کو افغانستان کے طالبان کے کنٹرول میں جانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے حالانکہ امریکی فوجیوں کا انخلا، جس کے باعث یہ صورت حال پیدا ہوئی، خود ان کی سابقہ انتظامیہ نے طالبان سے معاہدہ کیا تھا۔

الاباما میں اپنے حامیوں کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’بائیڈن کا افغانستان سے ایسے نکلنا قوم کے کسی بھی رہنما کی انتہائی نااہلی کا حیران کن مظاہرہ ہے، شاید تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہو۔‘

ٹرمپ نے صدر بائیڈن پر افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا الزام لگاتے ہوئے مزید کہا کہ ان کی انتظامیہ نے جو منصوبہ بنایا تھا اس پر عمل نہیں کیا گیا اور فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکی شہریوں اور فوجی ساز و سامان کو پیچھے چھوڑ دیا گیا جس پر انہیں افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ واپسی نہیں بلکہ سرنڈر تھا۔‘

ٹرمپ نے کہا کہ طالبان، جن کے ساتھ انہوں نے اپنے دورہ اقتدار میں مذاکرات کیے تھے، ان کا احترام کرتے ہیں۔

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ صدارت کے عہدے پر برقرار رہتے تو افغانستان پر اس طرح فوری قبضہ نہ ہوتا۔

ٹرمپ نے مزید کہا: ’ہم باعزت طور پر افغانستان سے نکل سکتے تھے۔ ہمیں وقار کے ساتھ نکلنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم اس کے برخلاف بے عزت ہو کر وہاں سے نکلے ہیں۔‘


روس اور چین کو طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے: برطانیہ

برطانیہ کا کہنا ہے کہ روس اور چین کو طالبان پر اپنا 'اعتدال پر مبنی اثر و رسوخ' استعمال کرنا چاہیے۔

روئٹرز کے مطابق وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ طالبان اور برطانیہ سمیت دیگر حکومتوں کے درمیان عدم اعتماد کے باوجود ہمیں افغان عسکریت پسند گروپ پر ’اثر و رسوخ‘ استعمال کرنے کے لیے روس اور چین سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

راب نے سنڈے ٹیلی گراف کو بتایا: ’حالانکہ ایسا کرنا ہمارے لیے تکلیف دہ ہے لیکن ہمیں طالبان پر روس اور چین جیسے ممکنہ اعتدال پسند اثر و رسوخ والے ممالک سے رابطہ کرنا ہی پڑے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ اور چین کے تعلقات ہانگ کانگ اور اویغور نسلی گروہ کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سمیت مختلف مسائل کی وجہ سے اختلافات کا شکار ہیں جب کہ لندن اور ماسکو کے مابین تعلقات میں بھی 2018 سے روس کے ڈبل ایجنٹ کی برطانیہ میں مشتبہ ہلاکت کے بعد سے سرد مہری پائی جاتی ہے۔

حال ہی میں ماسکو میں کام کرنے والے بی بی سی کے ایک صحافی کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کے بعد برطانیہ اور روس کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔

برطانیہ کی وزارت دفاع کے مطابق برطانوی افواج نے 13 اگست سے اب تک برطانوی سفارتی عملے، برطانوی شہریوں اور افغان پناہ گزینوں سمیت تین ہزار 821 افراد کو کابل سے نکالا ہے جن میں سے  ایک ہزار 323 افراد برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا