یورپ کو افغان تارکین وطن کے بحران کا خدشہ

روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ملک چھوڑ کر ازبکستان جانے والے پناہ گزینوں میں سے مزید 400 افراد کو ازبکستان نے داخلے کی اجازت دے دی ہے۔

ترکی اور ایران کے درمیان موجود سرحدی دیوار ایک سفید سانپ جیسی دکھائی دیتی ہے جو ویران پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی ہے۔ تاحال یہ دیوار دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے صرف ایک تہائی حصہ یعنی 540 کلو میٹر پر موجود جس کے باعث ایک بڑا حصہ ایسا ہے جہاں سے تارکین وطن رات کی تاریکی میں سرحد پار کر جاتے ہیں۔

اس راستے پر سے حالیہ دنوں میں گزرنے والے افراد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کافی مستحکم رہی ہے لیکن یورپی ممالک بشمول ترکی کو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد اس صورت حال کے بدلنے کا ڈر ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سال 2015 میں شامی تارکین وطن کی یورپ آمد پر پیدا ہونے والے بحران کے بعد یورپی ممالک کے سربراہان افغانستان سے تارکین وطن کی بڑی تعداد کو یورپ آنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف ایسے افراد کو آنے دینا چاہتے ہیں جنہوں نے افغان جنگ میں یورپی ممالک کی افواج کی مدد کی تھی۔

ان رہنماوں کی جانب سے افغان شہریوں کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ ‘اگر آپ افغانستان کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو کسی پڑوسی ملک چلے جائیں لیکن یہاں مت آئیں۔’

اسی حوالے سے آسٹریا کے وزیر داخلہ کارل نہیمر کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا ہدف یہی ہونا چاہیے کہ زیادہ تر افراد کو اس خطے میں ہی رکھا جائے۔’

ان سے قبل کئی یورپی رہنما بھی اسی قسم کے بیانات دے چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اُدھر روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ملک چھوڑ کر ازبکستان جانے والے پناہ گزینوں میں سے مزید 400 افراد کو ازبکستان نے داخلے کی اجازت دے دی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے روسی سرکاری ادارے ٹاس کی وساطت سے خبر دی ہے کہ ان افراد کو افغان سرحد کے قریب عارضی رہائش گاہوں میں رکھا جائے گا۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ افغانستان سے اب تک کتنے افراد ملک چھوڑ کر ازبکستان پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب ازبکستان کی حکومت نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے جن میں کہا جا رہا تھا کہ افغان شخصیات بشمول جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہیں ازبکستان میں پناہ دی گئی ہے۔


کابل میں پاکستانی سفارتخانہ چار ہزار ویزے جاری کر چکا: فواد چوہدری

 

پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کے کابل میں واقع سفارتخانے نے اب تک چار ہزار سے زیادہ ویزے جاری کر دیے ہیں جس میں سے دو ہزار سے زیادہ افراد سفر بھی کر چکے ہیں۔

مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے نے لوگوں کو یہ سہولت فراہم کی ہے کہ وہ کابل سے پاکستان آ سکتے ہیں اور 1400 افراد کو قومی فضائی کمپنی پاکستان لے کر آئی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا دو ہزار افراد میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافی، بین الاقوامی اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے اور مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والا سفارتی عملہ شامل تھا۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سے لوگوں کو نکالنے کے لیے سرگرم ہے۔


طالبان کے شریک بانی ملا برادر نئی حکومت بنانے کابل پہنچ گئے

طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر ہفتے کو گروپ کے ساتھی ارکان اور دیگر سیاست دانوں سے نئی افغان حکومت کے قیام پر بات چیت کے لیے کابل پہنچ گئے۔

ایک سینیئر طالبان عہدے دار نے  فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ (ملا برادر) ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے جہادی رہنماؤں اور سیاست دانوں سے ملاقات کے لیے کابل میں ہیں۔‘

2010 میں پاکستان میں گرفتار کیے گئے ملا برادر کو 2018 میں امریکی دباؤ پر رہا کیا گیا تھا جو بعد ازاں قطر میں قائم طالبان کے سیاسیی دفتر کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے۔

گذشتہ سال فروری میں انہی کے زیر نگرانی طالبان نے امریکہ کے ساتھ غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

ملا برادر منگل کو قطر سے افغانستان پہنچے تھے۔ انہوں نے ملک کے دوسرے بڑے اور طالبان کے بانی شہر قندھار میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کی واپسی کے چند گھنٹوں گروپ نے اعلان کیا کہ اس بار ان کی طرز حکمرانی ماضی سے ’مختلف‘ ہوگی۔


امریکی شہریوں پر تشدد کی خبروں کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں: واشنگٹن

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ کابل میں امریکی شہریوں کو ہراساں یا زد و کوب کیے جانے کی خبروں کو ’غیر معمولی سنجیدگی‘ سے لے رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ طالبان نے واشنگٹن کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان باشندوں کو، جو 31 اگست کے بعد ملک چھوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں، اجازت دیں گے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بریفنگ میں بتایا کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے متعدد ممالک کے ذریعے امریکی شہریوں اور ممکنہ طور پر کابل سے انخلا کرنے والے دیگر افراد کو منتقل کر رہے ہیں۔


طالبان کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں: برطانوی وزیر اعظم

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ضرورت پڑنے پر برطانیہ ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

انہوں نے افغانستان کے معاملات پر شدید تنقید کی زد میں آنے والے اپنے وزیر خارجہ کا دفاع بھی کیا۔

جانسن نے میڈیا کو بتایا: ’میں عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ افغانستان کا حل تلاش کرنے کے لیے ہماری سیاسی اور سفارتی کوششیں جاری رہیں گی اور اگر ضروری ہوا تو ہم طالبان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘

 

جانسن نے کہا کہ کابل ہوائی اڈے پر صورتحال ’قدرے بہتر‘ ہو رہی ہے جہاں ہزاروں افراد ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ہفتے سے اب تک ایک ہزار 615 افراد کے انخلا کو ممکن بنایا، جن میں 399 برطانوی شہری، 320 سفارت خانے کا عملہ اور 402 افغان شامل ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں اب بھی وزیر خارجہ ڈومینک راب پر اعتماد ہے جنہوں نے بحران کے جواب میں مخالفین سے استعفے کا مطالبہ کیا، اس کے جواب میں انہوں نے کہا: ’بالکل۔‘


طالبان کی آفیشل ویب سائٹس آف لائن

افغان طالبان کی ویب سائٹس جن کے ذریعے فاتح گروپ افغانستان اور دنیا بھر میں پانچ زبانوں میں اپنے پیغامات پہنچاتا تھا جمعے کو اچانک آف لائن ہو گئیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوا کہ پشتو، اردو، عربی، انگریزی اور دری زبانوں میں کام کرنے والی ان سائٹیں کے اچانک آف لائن ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔

انہیں سان فرانسسکو میں قائم کنٹینٹ ڈیلیوری نیٹ ورک ’کلاؤڈ فلیئر‘ اور ’ڈینائل آف سروس پروٹئکشن پرووائیڈر‘ کی جانب سے تحفظ حاصل تھا۔

کلاؤڈ فلیئر نے اس بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس پیش رفت کی رپورٹ سب سے پہلے واشنگٹن پوسٹ نے دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کلاؤڈ فلیئر شیلڈ عوام کو یہ جاننے سے روکتی ہے کہ سائٹس کی میزبانی کون کرتا ہے۔

آن لائن انتہا پسندی پر نظر رکھنے والی ’سائٹ انٹیلی جنس گروپ‘ کی ڈائریکٹر ریٹا کاٹز کے مطابق جمعے کو مشہور انکرپٹڈ میسجنگ سروس واٹس ایپ نے متعدد طالبان گروپس کو بھی ہٹا دیا تھا۔

ویب سائٹس کا آف لائن ہونا عارضی ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان ان سائٹس کی ہاسٹنگ کے نئے انتظامات کر سکتے ہیں۔ لیکن واٹس ایپ گروپس کو ہٹائے جانے کی رپورٹس امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے طالبان کے ہاتھوں گرنے کے بعد فیس بک کی جانب سے طالبان کے اکاؤنٹس پر پابندی لگانے کے بعد سامنے آئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا