سابق افغان حکومت کی تان لغمان میں کیسے ٹوٹی

افغان فوج کے زوال میں شاید موبائل فون نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا جس کے ذریعے فریقین ایک دوسرے کو پیغام، دھمکیاں دیتے ہیں اور بات چیت کرتے تھے۔

صوبہ لغمان کے صدر مقام مہترلام میں پہنچنے پر ’پخیر‘ یعنی خیریت سے آنے کی عبارت والا گیٹ شہر کے آغاز کا پتا دیتا ہے۔

اس موقعے پر گاڑی میں بجتا پشتو گیت کچھ یوں تھا: ’میں لغمان کی جانب بڑھ رہا ہوں اور میرا سانس ٹوٹ رہا ہے۔‘ 

اس گلوکار کی سانس اکھڑنے کی وجہ تو شاید عشق ہے لیکن یہاں سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خارجہ حنیف اتمر کی حکومت حالیہ دنوں میں ضرور ٹوٹ گئی۔

کابل اور پشاور کے درمیان اہم تجارتی گزرگاہ پر واقع لغمان افغانستان کا سیاسی و جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم صوبہ رہا ہے۔ یہاں سے طالبان کے نرغے کا سامنا کرنے والی وادی پنج شیر کو بھی ایک راستہ جاتا ہے۔

مہترلام کے معنی بھی یہاں کے لوگوں کی طرح مثبت پہلوؤں پر مبنی ہیں۔ مطلب ایکشن پر مبنی، علم بردار، قدرتی رہنما، آزاد، مضبوط خواہش مند، طاقت ور، بہادر اور جدید ہے۔

جمعے کے باوجود مہترلام کے بازار میں رش تھا۔ افغانوں کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ شاید وہ ایک دن بھی کاروبار چھوڑ سکیں۔ شہر کے مرکز اور صوبائی گورنر کے دفتر کے باہر طالبان کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔

لغمان ایک پختون اکثریتی صوبہ ہے۔ یہاں بھی کابل اور جلال آباد کی طرح بھارت کی بجاج کمپنی کے بنے پیلے رکشوں کا راج ہے۔ رحمانی چوک میں ایک رکشہ ڈرائیور محبت خان سے بات ہوئی تو پوچھا کتنے میں یہ سواری خریدی جاسکتی ہے؟

اس کا جواب تھا: ’یہ رکشہ میں نے تین چار ماہ قبل دو ہزار پچاس ڈالرز (تقریبا تین لاکھ 40 ہزار پاکستانی روپوں) میں لیا تھا۔ چلانے میں اچھا ہے کوئی مسئلہ نہیں کرتا۔‘

ملک کے اس مشرقی حصے میں طالبان کے حملوں میں جولائی سے شدت آئی تھی۔ ناکامی پر ضلع کے اعلی اہلکاروں کی گرفتاری ہوئی اور 100 سے زائد افغان نیشنل آرمی کے اہلکار برخاست ہوئے۔ ان میں سے کئی کے مقدمات عدالت کو بھی بھیجے گئے۔

سپاہیوں کے لیے مناسب اسلحے و خوارک کی عدم دستیابی، اور بعض پولیس اہلکاروں کو پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ ایسے میں یہاں تعینات سکیورٹی اور سویلین اداروں کا مورال اونچا رکھنا مشکل تھا۔ 

پھر مقامی قبائلی مشران نے ان حکام اور فوجیوں کو مشورہ دیا کہ کمک نہیں آ رہی لہذا بہتر ہے آپ یہاں سے چلے جائیں۔ 53 سالہ بنی سرور خادم بھی ان مشران میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ان سکیورٹی اہلکاروں کو نہیں بچا سکی جنہیں اپنی موت صاف دکھائی دے رہی تھی۔

شہر کی نگرانی پر طالبان مامور ہیں۔ ان سے اعلینگر ضلع کے مقامی گورنر اور پولیس چیف کی گرفتاری کے بارے میں معلوم کیا تو کاشا نامی نوجوان نے بتایا کہ پہلے وہ قیدی تھے اب معلوم نہیں ان کے بارے میں۔ ’الحمد اللہ تمام کنٹرول مجاہدین کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی مشکل نہیں۔‘ 

اس وقت ہر کوئی اپنی مقامی جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ عجیب حالات ہیں جن میں اکثر بھائی اور کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ افغان فوج کے زوال میں شاید موبائل فون نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا جس کے ذریعے فریقین ایک دوسرے کو پیغام، دھمکیاں دیتے ہیں اور بات چیت کرتے تھے۔ پھر دیگر صوبوں میں فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی خبروں نے بھی ہمت توڑی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعے کے باوجود بازار کھلے تھے۔ طالبان کی جانب سے اسے بند کرانے کے لیے بظاہر کوئی دباؤ نہیں تھا۔

موٹر سائیکل مکینک میر حسن سے پوچھا کہ کاروبار کیسا ہے تو ان کا طالبان کی اردگرد موجودگی میں کہنا تھا کہ ’خیر خیریت ہے ابھی۔ حالات مکمل طور پر ٹھیک ہیں۔ شکر ہے کاروبار بھی ٹھیک ہے۔ جمعے کو ہم جلد دکان بند کر دیتے ہیں۔ اب شکر ہے کاروبار زیادہ ہے۔‘

لغمان سیاسی اور تفریحی اعتبار سے اہم صوبہ ہے۔ مقامی دانش ور ڈاکٹر مائل نے اس اہمیت پر مزید روشنی یوں ڈالی۔ ’یہ شمال اور وادی پنج شیر کا دروازہ بھی ہے۔ لغمان کے اکثر رہائشی تعلیم اور زراعت سے جڑے ہیں۔ تجربے کار منجھے ہوئے لوگ ہیں۔اکثر اعلیٰ حکومتی محکموں اور اداروں میں نمائندگی رکھتے ہیں یہاں تک کہ اہم سمجھ بوجھ رکھنے والے علما بھی یہاں سے ہیں۔ اس صوبے سے سابق افغان حکومت میں حنیف اتمر بطور وزیر خارجہ اور اکلیل احمد حکیمی وزیر خزانہ تھے۔ موجودہ نظام میں بھی ہمارے علاقے کے بہت سے لوگ شامل ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے مشورے کے بغیر کوئی حکومت آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘

تقریبا پانچ لاکھ آبادی کے اس صوبے کے کنٹرول کے لیے لڑائی مئی سے جاری تھی تاہم بالاخر طالبان نے یہاں بھی قبضہ کر لیا۔

 یہاں بھی سب کو نئی حکومت اور اس سے زیادہ اس حکومت کی پالیسیوں کا انتظار ہے اور سوال یہی ہے کہ آیا وہ چل بھی پائے گی یا نہیں۔ صرف امن کافی نہیں اقتصاد بھی ضروری ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا