پاکستان کا قریبی تعلق ہے تو چیلنجز بھی بڑے ہوں گے: سابق افغان گورنر

اسلا آباد میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق ’پاک افغان یوتھ فورم‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار کے دوران سابق افغان گورنر جمال الدین بدر کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

’افغانستان میں امن کی واپسی اب پوری دنیا کی ذمہ داری ہے اور تمام ممالک خصوصاً جو اس جنگ زدہ ملک میں موجود رہے ان کو افغانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ہر طریقے سے ان کی مدد کرنا ہو گی۔‘

یہ کہنا تھا اسلا آباد میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق ’پاک افغان یوتھ فورم‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار کے مقررین کا، جنہوں نے مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ پر ان کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ’تاہم ہم طالبان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسا نظام لے کر آئیں گے جو افغانستان کے لوگوں اور دنیا کے لیے قابل قبول ہو۔‘

سیمینار میں دو مختلف سیشنز کا اہتمام کیا گیا تھا جن کے موضوعات تھے: ’جنگ کے بعد زندگی، افغانستان کی تعمیر نو‘ اور ’افغانستان میں انسانی بنیادوں پر عمل، پاکستان کو درپیش چیلنج‘ جن میں پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابق حکومتی اہلکار، محقق، سیاستدان اور پروفیشنلز شامل تھے۔

اس موقعے پر تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا پیغام بھی سنایا گیا، جس میں انہوں نے اسلام آباد سے پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی استدعا کی۔

انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کے علاوہ دوسرے افغان باشندوں کو مختلف ضرورتوں کے تحت پاکستان آنا پڑتا ہے، جس میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’ہماری حکومت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ان مجبور اور معصوم لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی مشترکات ہیں اور طالبان کی حکومت اسلام آباد سے ہمیشہ بہتر تعلقات کی خواہاں رہے گی۔ ’ہم امید رکھتے ہیں کہ ریاست پاکستان بھی افغانستان میں نئے نظام حکومت کو سپورٹ کرے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم تمام ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، خصوص طور پر چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں امن کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے۔‘

افغانستان کے صوبہ نورستان کے سابق گورنر جمال الدین بدر کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ 

’البتہ اس سے قطعی یہ مراد نہیں کہ دنیا کے دوسرے ملک کسی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتے ہیں، لیکن چونکہ پاکستان کا قریبی تعلق ہے افغانستان کے ساتھ اس لیے اس کے لیے چیلنجز بھی بڑے ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں اس وقت ایک خلا موجود ہے اور اس کو پر کرنا ایک مشکل کام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ طالبان افغانستان میں نہ صرف امن لائیں گے بلکہ وہاں لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا باعث بھی بنیں گے۔

جمال الدین بدر کا مزید کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے افغانستان کے لوگ پاکستان سے امید رکھتے ہیں کہ وہاں امن کے قیام اور ترقی میں پاکستان اہم کردار ادا کرے گا۔

افغانستان میں سابق حکومت کے تحت کام کرنے والے مصالحتی کمیشن کے رکن مولوی عطا الرحمان سلیم کا کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا انتظار کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف افغانستان کے لوگ بلکہ خطہ اور پوری دنیا اس انتظار میں ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں اس ملک میں کون سا نظام ہو گا۔

پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ افغانستان میں امن کا حامی رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔

’افغانستان میں امن پاکستان کے لیے ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھول سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو ایسے نظام کی ضرورت ہو گی جو نہ صرف افغانستان کے لوگوں کی زندگیوں کو بدل سکے بلکہ دنیا میں اس جنگ زدہ ملک کی حیثیت کو بھی منوائے۔

ساؤتھ ایشین سٹریٹیجک سٹیبیلیٹی انسٹیٹیوٹ یونیورسٹی (ساسی) کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریہ سلطان نے مغربی طاقتوں کے افغانستان میں کردار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس ملک میں امن کو موقع دیں اور ترقی کے لیے کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں وسائل بہت زیادہ ہیں، ضرورت انہیں استعمال کرنے کی ہے جس کے لیے طالبان کو بیرونی دنیا کی امداد اور وسائل درکار ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان