پاکستان اور افغانستان میں تجارت ڈالر نہیں روپے میں ہو گی: وزیر خزانہ

وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سسٹم پر مزید حملے ہو سکتے ہیں کیونکہ ’ہمسایہ ملک اس چیز کا ماہر ہے‘۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ ’افغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے افغانستان کے ڈالر روک رکھے ہیں۔‘(اے ایف پی)

پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اب ڈالر کے بجائے روپے میں کی جائے گی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس جمعرات کو  سینیٹر طلحہ محمود کی صدارت میں ہوا، جس  میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملکی معیشت سے متعلق مختلف امور پر اراکین کو بریفنگ دی۔

اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ ’اب افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں روپے میں ہو گی کیونکہ افغانستان کو ڈالر کی کمی کا ڈر پیدا ہو گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے افغانستان کے ڈالر روک رکھے ہیں۔‘

شوکت ترین نے افغانستان کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’افغانستان کی صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں مختلف معمولات چلانے کے لیے پاکستان سے بھی لوگوں کو بھیجا جا سکتا ہے۔ لیکن کھانے پینے کی اشیا افغانستان جانے سے مقامی قلت کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اضافی ذخائر قائم کر رہے ہیں۔‘

چیئرمین کمیٹی کی جانب سے ایف بی آر کا سسٹم ہیک ہونے کا معاملہ اٹھانے پر وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ ’اس معاملے میں جسے سزا ملنی چاہیے تھی مل گئی۔ تاہم ہیکر ایف بی آر کا ڈیٹا چوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایف بی آر اور پرال کے پاس ٹیکنالوجی کو مینج کرنے والے لوگ ہی نہیں ہیں۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کے سسٹم کا ہر حال میں تحفظ کریں گے۔ ہیکرز کے حملے کے بعد سسٹم بحال کرنے میں سات دن لگے تھے۔ سسٹم بہتر کریں گے چاہیے جتنے فنڈز خرچ کرنا پڑیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایف بی آر کے سسٹم پر مزید حملے ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمسایہ ملک اس چیز کا ماہر ہے۔‘

 وزیر خزانہ نے انکشاف کیا کہ ’یہ پہلا حملہ نہیں تھا بلکہ ایف بی آر کے سسٹم پر 2019 میں بھی حملہ ہو چکا ہے۔‘

انہوں نے ایف بی آر کے ٹیکس نوٹسز کے حوالے سے بتایا کہ ’ایف بی آر نوٹسز کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا موجود ہے جو سیلز ٹیکس دے سکتے ہیں۔ یہ ڈیٹا نادرا سے حاصل کیا گیا ہے اور ان کو ایک پیغام بھیجا جائے گا۔ اگر وہ پیغام پر اپنا جواب دیتے ہیں تو ٹھیک نہیں تو قانونی کارروائی ہو گی۔‘

چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے وزیر خزانہ سے سوال کیا کہ ’جب آپ وزیر خزانہ بنے تو ڈالر 153 روپے کا تھا اب 169 روپے کا ہوگیا ہے تو اس پر کیا وضاحت دیں گے؟‘

شوکت ترین نے اس پر بتایا کہ ’ایکسچینج ریٹ اس وقت جہاں موجود ہے اس جگہ پر ہونے کا ہدف تھا، ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر کم رکھنے سے نقصان ہوتا ہے اور ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ سٹیٹ بینک نے کرنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے مزید بتایا کہ ’آئی ایم ایف اور یورو بانڈ سمیت سوا چھ ارب ڈالر کے فنڈز حاصل ہوئے اس سے زر مبادلہ زخائر بلند ترین سطح تک پہنچ گئے۔‘

انہوں اعتراف کیا کہ ذخائر میں اضافے کا تعلق تجارت سے نہیں ہے۔

ایک رکن اسمبلی کی جانب سے کامیاب نوجوان سکیم کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام جلد شروع کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کامیاب پاکستان پروگرام شروع کیا جائے گا۔

’ہم غریبوں کے لیے یہ پروگرام شروع کریں گے، لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام پر اعتراض سامنے آیا تھا اس لیے پورے پاکستان میں کامیاب پاکستان پروگرام شروع کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔‘

انہوں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف نے ہمیں کہا کہ پہلے سافٹ پروگرام کا اجرا کریں۔ ایسا نہ ہو کہیں ایک دم کسی گڑھے میں گر جائیں۔ پروگرام اگست میں شروع کرنا تھا تاہم کچھ تاخیرہو گئی۔‘

انہوں نے بریفنگ میں مزید بتایا کہ ’ملک میں مہنگائی ہے لیکن کم ہو رہی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی 18 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آگئی۔ عوام پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ بے شک 600 ارب روپے کی پیٹرولیم لیوی میں سے 200 یا 300 ارب حاصل ہوں۔‘

شوکت ترین نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ’آئی ایم ایف نے 150 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا تھا، میں نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی اور کہا کہ مصنوعی مہنگائی کو انتظامی اقدامات سے ٹھیک کریں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت