’نعمان آفریدی کی بیسویں گریڈ میں ترقی ہونے والی تھی جب یہ واقعہ ہوا‘

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بیوروکریسی، پولیس اور موٹروے حکام میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ دونوں افسران تجربہ کار تھے لیکن انہوں  نے مجرمان کو پکڑنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ تکنیکی طور پر درست نہیں تھا۔

سر اور سینے پر گولیاں لگنے کی وجہ سے نعمان افضل آفریدی نے موٹروے ٹول پلازہ پر ہی دم توڑ دیا (تصویر: ظہور بابر آفریدی)

دس ستمبر کو ایم ون موٹروے پر دو افسران ایک مشتبہ گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اس وقت  حادثےکا شکار ہوئے جب  فرار ہونے والے نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کھول دی۔

اٹھارہ گھنٹے قبل ہونے والے اس حادثے میں ایک افسر موقعے پر ہی چل بسے جب کہ دوسرے افسر اس وقت  اسلام آباد کےپمز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ایم ون موٹر وے حکام نے حادثے کے فوراً بعد اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر تفصیلات شریک کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’حادثے میں زخمی ہونے والے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) سجاد افضل اور ان کے بھائی پی اے ایس آفیسر نعمان آفریدی تھے۔‘

تفصیلات کے مطابق، گزشتہ روز نعمان افضل آفریدی اور ان کے چچازاد بھائی سجاد افضل آفریدی تقریباً پانچ بجے کے قریب اسلام آباد سے پشاور جارہے تھے، جب انہوں نے پنڈی سے پشاور موٹروے داخل ہونے والی ایک مشتبہ گاڑی دیکھی، جس کی نمبر پلیٹ جعلی تھی۔ سجاد افضل نے بطور موٹروے افسر مشکوک افراد کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ فتح جھنگ ٹول پلازہ کے قریب انہوں نے مشتبہ گاڑی کو گھیر لیا۔

یہ واقعہ ٹول پلازہ میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ ہوا، جن میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ نامعلوم ملزمان کی گاڑی تیز رفتاری سے ٹول پلازہ کے قریب پہنچتی ہے لیکن ان سے آگے ایک پرائیویٹ گاڑی ان کے راستے میں رکاوٹ  پیدا کر دیتی ہے اور سجاد افضل کی ایس یو وی گاڑی ملزمان کی سیڈان کے عین قریب پہنچ جاتی ہے۔

اسی دوران، نعمان افضل اور سجاد افضل دونوں فوراً گاڑی سے نیچے اترتے ہیں۔ سجاد افضل ڈرائیونگ سیٹ والے دروازے کے پاس کھڑے ہوتے ہیں، جب کہ نعمان مشتبہ گاڑی کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔

فرار کا کوئی راستہ نہ پاکر ملزمان گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردیتے ہیں، نتیجتاً نعمان کی موت واقع ہوئی جب کہ سجاد زخمی ہوئے۔

پمز ہسپتال میں سجاد افضل کے کمرے پر ڈیوٹی دینے والے موٹروے پولیس اہلکار عاقب سلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اے آئی جی موٹروے کو ایک گولی ٹانگ پر اور دو بازوؤں میں لگی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اے آئی جی کی طبیعت بحال ہوگئی ہے اور ان کی جان خطرے سے باہر ہے۔

دوسری جانب، نعمان افضل آفریدی کو سر اور سینے پر گولیاں لگنے کی وجہ سے انہوں نے موٹروے ٹول پلازہ پر ہی دم توڑ دیا۔ ان کے  لواحقین نے ڈیڈ باڈی ایبٹ آباد شفٹ کردی جہاں آج بروز ہفتہ گیارہ بجے ان کی تدفین ہوئی۔

ایبٹ اباد کے موجودہ ضلعی پولیس افسر( ڈی پی او) ظہور آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نعمان آفریدی اور سجاد آفریدی ان کے چچازاد بھائی تھے۔ انہوں نے کہا کہ نعمان کی موت نہ صرف ان کے قبیلے ملک دین خیل بلکہ اس صوبے کا بہت بڑا نقصان ہے۔

’وہ ایک انتہائی ایماندار، محنتی اور قابل افسر تھے۔ انہیں معاشیات اور فنانس کے موضوع پر کافی عبور حاصل تھا۔وہ معاشیات کے ماہر تھے اور ہماری بیوروکریسی میں ماہرین کی پہلے ہی  بہت کمی ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کا مستقبل بہت تابناک ہوتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نعمان آفریدی کا بنیادی تعلق ضلع خیبر تیراہ سے تھا۔ وہ کچھ ماہ قبل خیبر پختونخوا کے پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ میں بطور چیف اکانومسٹ فرائض سرانجام دے رہے تھے۔  اس دوران انہیں تین ماہ کا سینئر مینجمنٹ کورس (ایس ایم سی) کرنا پڑا، جس کے بعد ان کی ترقی بطور بیس گریڈ آفیسر ہونی تھی۔ ایس ایم سی کورس کی سرٹیفیکیٹ تقریب گزشتہ روز ڈیڑھ بجے اختتام پذیر ہوئی، جس میں نعمان آفریدی نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔

ایس ایم سی تقریب کے فوراً بعد نعمان آفریدی اپنے چچازاد کے ساتھ ایک دوست کے والد کے فاتحہ پر گئے جہاں سے واپسی پر موٹروے پر مذکورہ حادثہ پیش آیا۔

ایک آفیشل نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اے آئی جی سجاد افضل کو مجرموں کو پکڑنے کے لیے موٹر وے پٹرولنگ پر مامور دیگر حکام کو اطلاع دینی چاہیے تھی جو ناکے پر ان کا راستہ روک لیتے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ’بیوروکریسی، پولیس اور موٹروے حکام کے افسروں میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ دونوں افسران تجربہ کار اور قابل تھے لیکن پھر بھی انہوں  نے مجرمان کو پکڑنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ تکنیکی طور پر درست نہیں تھا۔‘

فیملی پس منظر

نعمان آفریدی کی عمر تقریباً چھیالیس سال تھی، ان کے سوگواران میں ایک جوان بیوہ،  ایک سات سالہ بیٹا، والدین اور ایک بھائی شامل ہیں۔

نعمان آفریدی نے ترکی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ جس کے بعد انہوں نے پاکستان میں ترکش فرم میں ملازمت اختیار کی۔ بعد ازاں انہوں نے سی ایس ایس کیا اور راولپنڈی،  ڈی آئی خان، جنوبی وزیرستان میں بطور اسسٹنٹ اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تعینات رہے۔

مذکورہ واقعے کی تفصیلات کے مطابق، ملزمان کی تاحال شناخت یا گرفتاری نہیں ہوسکی ہے۔ ملزمان نے واقعے کے بعد گاڑی موٹر وے پر ہی چھوڑ دی تھی، جو کہ ایک ڈوپلیکیٹ گاڑی تھی۔ موٹروے حکام کے مطابق، واقعے کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملزمان کافی خطرناک اور تجربہ کار تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان