موٹر وے ریپ کیس: غلط سے صحیح تک

میٹرک یا کالج کی سطح پر نوجوانوں کو لازمی کلاسز میں عورت کی عزت، عظمت اور حقوق کے حوالے سے تربیت کی جائے۔

بھارت کے شہر بنگلور میں خواتین جنسی ہراسانی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے (اے ایف پی)

لاہور موٹر وے لنک روڈ پر پر تین بچوں کی والدہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ ہوا، نہایت غلط ہوا۔ کراچی میں پانچ سالہ مروہ کے ساتھ جس طرح زیادتی کی گئی اور اسے قتل کیا گیا، بالکل غلط ہوا۔ اسلام آباد میں سائیکلسٹ ثمر خان کو جس طرح بھری سڑک پر ہراساں کیا گیا، وہ بھی غلط ہوا۔

لیکن اس غلط کو کیا صرف غلط کہنا کافی ہے؟ ہر تھوڑے دن بعد ایسا کوئی دلخراش واقعہ میڈیا کی زینت بنتا ہے، سب اس پر کہتے ہیں کہ غلط ہوا اور پھر کوئی دوسرا واقعہ ہونے تک بات کہیں دب جاتی ہے۔ جب تک ہم ان دبی ہوئی باتوں کو روزانہ کی بنیاد پر معاشرے کے سامنے نہیں لاتے رہیں گے، اس وقت تک ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ یہ غلط کبھی ختم گا۔

زینب نامی بچی کو ساتھ جو ظلم ہوا، اس ظلم پر جب سب نے آواز اٹھائی تو اس کے مجرم کو سزا بھی ملی اور اسی بچی کی مرہون منت ملک کی باقی بچیوں کی حفاظت کے لیے پارلیمان نے زینب ایکٹ بھی پاس کیا۔ زینب الرٹ کے نام سے ایک موبائل ایپ بھی بنائی گئی جو کہ بچوں کی حفاظت کے حوالے سے مددگار ثابت ہوتی ہے۔

زیادتی اور ہراسانی کے ان تازہ واقعات کی بنا پر معاشرے میں اس وقت جو شور برپا ہے، اسے اگر دبنے نہ دیا جائے تو حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسے معاملات کے حوالے سے زیرو برداشت پالیسی اپنائے۔ اس زیرو ٹالرنس پالیسی میں قانونی معاملات اور سماجی رویے، دونوں کے حوالے سے عملی اقدامات  ہوں تو کچھ عرصے میں ان کا اثر نظر آنا شروع ہو جائے گا۔

قانونی سطح پر یہ اقدامات ان واقعات کی روک تھام کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں:

 اس طرح کے سانحے کے حوالے سے جو کوئی بھی خود کو کسی خطرے میں پائے، اس کے لیے ایک خاص ہیلپ لائن کی موجودگی ضروری ہے جس پر وہ شخص اپنے موبائل پر صرف ایک یا دو بٹن دبا کر کوئی بات کئے بغیر متعلقہ اداروں کو اپنی لوکیشن اور خطرے سے آگاہ کر سکے۔ اس ہیلپ لائن پر موجود عملے کے پاس فوری طور پر یہ معلومات بھی آجانی چاہیے کہ جس شخص نے مشکل میں مدد طلب کی ہے، اس وقت اس سے پانچ فٹ کی رینج میں کون سا موبائل اور کون سا نمبر ایکٹو ہے۔

اس طرح فوری طور پر ان ممکنہ  نمبروں کا پتا چل جائے گا جو ملزم استعمال کر رہے ہیں اور ان تک رسائی میں آسانی ہو گی۔ اس عملے کی ذمہ داری یہ بھی ہو کہ پانچ سے دس منٹ کے وقت میں وہ اس تک مدد کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اس ہیلپ لائن پر آنے والی کالز کو صوبے کے وزیر اعلی کی خاص ٹیم خود چیک کرے اور روزانہ کی رپورٹ انہیں پہنچائے۔

اگر کسی کے ساتھ خدانخواستہ ہراسانی کا واقعہ پیش آئے تو اس کے لیے رپورٹ درج کرانے کے عمل کو بھی آسان بنایا جائے۔ اس کے لیے تھانوں کی بجائے سپیشل ہیلپ سینٹر ہوں جہاں کا تربیت یافتہ عملہ ان کی نفسیاتی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے معلومات حاصل کرے اور یہ معلومات صرف خواتین پولیس تک پہنچائے۔ صرف اور صرف خواتین پولیس ان کیسز پر کام کرے اور پولیس کو اگر اس سلسلے میں مزید معلومات درکار ہوں تو متاثرہ خاتون سے سوالات صرف ہیلپ سینٹر پر عملے کی موجودگی میں کیے جائیں۔

ان ہیلپ سینٹرز پر متاثرہ خواتین کی نفسیاتی کونسلنگ کا بھی انتظام ہو۔

 جس طرح بہت سے نجی اداروں میں ہراسانی کے حوالے سے کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں اسی طرح ہر سرکاری ادارے، کالج، یونیورسٹی اور محلے کی سطح پر خواتین اور بزرگوں کی کمیٹیاں قائم ہوں جہاں پر خواتین آسانی سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو رپورٹ کر سکیں اور علاقے کے ان مردوں کی نشاندہی کر سکیں جنہوں نے ہراسانی کی۔ ان کمیٹیوں میں جو واقعات رپورٹ ہوں، ان کا ریکارڈ بھی ہیلپ سینٹرز کے پاس موجود ہو۔ 

ہراسانی اور زیادتی کے معاملات کے لیے خواتین وکلا اور ججز تعینات کی جائیں تاکہ متاثرہ خواتین ان کے سامنے کھل کر واقعات بیان کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔ یہ عدالتیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام مقدمات کا فیصلہ 60 دن میں ہو۔

ان مقدمات میں ضمانت کو ختم کیا جائے اور اس بات کو یقیی بنایا جائے کہ جرم چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو، سزا سخت سے سخت ہونی چاہیئے۔

جو مجرم سزا پوری کر لیں ان کے جسموں پر ایسے آلات لگائے جائیں جو کہ ہر وقت ان کی لوکیشن مانیٹرنگ کرتے رہیں۔ ایسے ملزموں اور مجرموں کا ایک آن لائن ریکارڈ موجود ہو جو کہ انٹرنیٹ کی مدد سے ہر شخص کی دسترس میں ہو تاکہ دکان یا مکان بیچتے یا کرائے پر دیتے وقت یا کسی بھی قسم کا تعلق قائم کرتے وقت لوگ اس ریکارڈ کو چیک کر سکیں۔

کچھ قوانین میڈیا کے حوالے سے بھی لاگو کیے جائیں کیونکہ ریسرچ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ میڈیا پر دکھایا جانے والا مواد انسانی ذہن پر کیا اثر ڈالتا ہے۔ ریسرچ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص پورنو گرافی یا آئیٹم سونگز یا دیگر واہیات فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر کسی منفی جذبے کی طرف مائل ہوتا ہے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ جس کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے اس کی عمر کیا ہے وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس کی ہوس پوری ہو اور اس کے لیے جو کمزور شکار اس کے سامنے آتا ہے وہ اسے شکار کر لیتا ہے۔ اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود مواد پر بھی کچھ قدغن ضروری ہے۔

سب سح اہم ترین سماجی رویوں میں تبدیلی کے لیے ذہن سازی کا عمل ان چند نکات کی روشنی میں شروع کیا جا سکتا ہے:

نوجوانوں کے لیے میٹرک یا کالج کی سطح پر لازمی کلاسز کا انعقاد یقینی بنایا جائے جس میں عورت کی عزت، عظمت اور حقوق کے حوالے سے ان کی تربیت کی جائے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ عورت کی عزت صرف اس وجہ سے نہ کی جائے کہ وہ کسی کی ماں، بیٹی یا بہن ہے، بلکہ عورت کی عزت بحیثیت انسان اور اس معاشرے میں برابری کا حق رکھنے والے فرد کے طور پر کی جائے۔ نوجوان لڑکوں کو خاص طور پر یہ سکھایا جائے کہ عورت مرد کے برابر، بلکہ کئی معاملات میں مردوں سے برتر ہے۔

وہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے جس کا جسم کوئی کھلونا نہیں کہ جب جی چاہا اس سے کھیل لیا۔ انہیں مردانگی کی بھی درست تشریح بتائی جائے کہ مرد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کو ہراساں کیا جا سکے بلکہ مرد ہونے کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہ ہراسانی اور ریپ جیسے معاملات سے دور رہے اور اگر وہ ایسا کوئی عمل ہوتا ہوا دیکھے تو اس کا شکار ہونے والے کو بچائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 سکول اور کالج ہی کہ سطح پر لڑکیوں میں بھی خاص کلاسز کے ذریعے اس بات کا شعور بیدار کیا جائے کہ وہ اپنی حیثیت کسی بھی طرح اس معاشرے کے مردوں سے کم نہ سمجھیں۔ انہیں یہ سکھایا جائے کہ اگر ان کے گھر میں ایسا ماحول ہے کہ جہاں عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے تو اس ماحول کو کیسے بہتر بنائیں اور کیسے اس میں اپنی شناخت بنائیں۔ انہی کلاسز میں انہیں ہراسانی جیسے معاملات سے بھی آگاہ کیا جائے اور ان میں اتنا اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ اس پر بات کرتے ہوئے یا اسے رپورٹ کرتے ہوئے نہ گھبرائیں۔

 سکول ہی کہ سطح پر ہر لڑکی کی سیلف ڈیفنس تربیت کو بھی ضروری بنایا جائے۔ اس ٹریننگ میں انہیں ہتھیاروں کے بغیر اور چند بنیادی ہتھیاروں کے ساتھ بھی خود کو بچانے کی تربیت دی جائے۔ انہیں مرچوں کے سپرے اور کرنٹ لگانے والی ڈیوائس سے بھی واقف کروایا جائے جو کہ کئی ممالک میں ہراسانی کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان تمام کلاسز کے بغیر لڑکوں اور لڑکیوں کا اپنے سکول اور کالج سے پاس ہونا ناممکن ہو۔

جو یکساں قومی نصاب حکومت کی طرف سے نافذ کیا جا رہا ہے اس میں خاص طور پر ایسی خواتین کے حوالے سے مواد شامل کیا جائے جسے پڑھ کر بچوں میں خواتین کی عزت میں اضافہ ہو۔ اس نصاب میں حیا کے حوالے سے اسلامی موضوعات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ دینی رجحان رکھنے والوں پر بھی اثر پڑ سکے۔

مسجد اور منبر کا استعمال بھی ذہن سازی کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت تمام بڑے علما اور مدارس سے رابطہ کرے اور ان کے ساتھ مل کر یہ پالیسی بنائے کہ مساجد میں عام طور پر اور جمعے کے خطبوں میں خاص طور پر اس موضوع پر ضرور بات ہوگی اور عورت کی حیثیت سے متعلق مردوں کے ذہنوں میں موجود غلط تصورات کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ گو کہ یہ مرحلہ مشکل ہوگا کیونکہ کئی مذہبی حلقے خواتین کو کمتر سمجھتے ہیں لیکن ایسے بہت سے حلقے بھی موجود ہیں جو عورت کی عظمت کے قائل ہیں۔

بس ان حلقوں تک رسائی ضروری ہے۔ اور اگر کچھ مساجد کے نام اسلام کی معزز خواتین کے نام پر بھی رکھ دیے جائیں تو کیا ہی بات ہوگی۔

قانون اپنا کام درست طریقے سے کرتا رہے اور سماجی رویوں میں تبدیلی کی کوششیں بھی جاری رہیں تو یقینی طور پر ایسے جرائم کے تعداد میں کمی آکر رہے گی۔ بس غلط کو غلط کہنے کے بعد صحیح سمت میں قدم اٹھانے کی دیر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ