موٹر وے کی دھند میں پھنسے مسافر اور میت کا آخری دیدار

موٹر وے پر دھند کی شدت جانچنے کے لیے ابھی تک کوئی جدید طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ روایتی انداز میں ہی موٹر وے کو مختلف مقامات سے بند کر دیا جاتا ہے، جس کے باعث گاڑیوں کو انٹر چینج سے باہر نکل کر بذریعہ جی ٹی روڈ یا عام شاہراہوں سے سفر کرنا پڑتاہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں ہر سال سردیوں کے دوران دھند کے باعث سفرکرنا کسی امتحان سے کم نہیں، خاص طور پر جب اچانک کہیں دھند کی شدت کے باعث موٹر وے بند کردیاجائے۔

موٹر وے پر دھند کی شدت جانچنے کے لیے ابھی تک کوئی جدید طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ روایتی انداز میں ہی موٹر وے کو مختلف مقامات سے بند کر دیا جاتا ہے، جس کے باعث گاڑیوں کو انٹر چینج سے باہر نکل کر بذریعہ جی ٹی روڈ یا عام شاہراہوں سے سفر کرنا پڑتاہے۔

پبلک ٹرانسپورٹرز کو بھی شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے، چند گھنٹوں کی مسافت طویل سفر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

موٹر وے پر حد نگاہ دس میٹر ہونے کے بعد موٹر وے پولیس کی جانب سے اسے سفر کے لیے خطرناک قرار دے کر بند کردیاجاتاہے۔

اس معاملے میں ابھی تک کوئی جدید یا سائنسی طریقہ کار نہیں بلکہ روایتی انداز اپناکر فیصلہ کیا جاتا ہے۔

دھند کی شدت میں حد نگاہ کی پیمائش:

موٹر وے پولیس کے ترجمان عمران شاہ کے مطابق دھند کے دنوں میں موٹر وے پولیس کی ہر دس کلومیٹر پر ایک گاڑی پیٹرولنگ کرتی ہے۔

ان گاڑیوں میں موجود اہلکاروں کا رابطہ سینٹرل کنٹرول سے ہوتاہے لہذا ہدایات کے مطابق گاڑیوں میں ڈیوٹی دینے والے اہلکار دھند کے شدید ہوتے ہی آگے جانیوالی گاڑی کے نظر آنے کی حد کا اندازہ لگاتے ہیں۔

وہ جانچتے ہیں کہ ڈرائیور کو اگلی گاڑی کا بمپر کتنے فاصلے تک نظر آرہاہے اور مسلسل سینٹرل کنٹرول کو اپنے اپنے ایریا سے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔

عمران شاہ کے مطابق جب کسی علاقے سے یہ اطلاع آئے کہ اگلی گاڑی نظر آنے کی حد دس میٹر یا اس سے بھی کم ہوگئی ہے تو عوامی تحفظ کے لیے قریبی انٹر چینج سےموٹر وے بند کر دی جاتی ہے۔

ترجمان موٹر وے کا کہناہے کہ محکمہ موسمیات سے بھی انہیں اطلاعات مسلسل موصول ہوتی ہیں کہ دھند کی شدت کتنی ہے لیکن اس میں موٹر وے کے لحاظ سے علاقوں کا احاطہ نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنے طریقے پر اعتماد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دھند کیونکہ ہر سال پڑتی ہے اس لیے ایریاز مخصوص ہیں اور زیادہ تر وہی بند کیے جاتے ہیں۔

جیسے ایم 2 لاہور - اسلام آباد موٹر وے، پنڈی بھٹیاں سے سیال موڑ تک یا شیخوپورہ تک بند کرنا پڑتی ہے۔

اسی طرح لاہور- سکھر موٹر وے، ملتان یا رحیم خان کے قریب سے بند کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح سیالکوٹ موٹر وے پر بھی ایک دو مقام ایسے ہیں جہاں بہت زیادہ دھند پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی اطلاعات ٹی وی چینلز کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ دھند کے اوقات میں سفر نہ کریں۔

دھند سے موٹر وے بندش: مسافروں کےمسائل:

دھند کے دنوں میں موٹروے سے سفر کرنے والی ہر قسم کی گاڑیوں کی آمدورفت مشکل ہوجاتی ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹ ہو، پبلک ٹرانسپورٹ ہو یا ذاتی گاڑیوں پر آنا جانا، پریشانی کا سامنا سب کو ہوتاہے لیکن گڈز ٹرانسپورٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ پر ماہر اور راستوں سے آشنا ڈرائیوراسے بہتر انداز میں حل کر لیتے ہیں۔

ذاتی گاڑی والوں کے لیے خاص طور پر جو متبادل راستے بھی نہ جانتے ہوں، یہ مصیبت بن جاتی ہے۔ ایسے حالات سے گزرنے والے ایک شہری نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے دھند کے دنوں میں شہریوں کی حفاظت کے لیےموٹر وے پولیس تو راستے بند کر کے بری الذمہ ہوجاتی ہے لیکن مسافر کو کس قسم کی مشکلات کا سامناکرنا پڑتاہے۔

عبدالرحمن نامی شہری نے گزشتہ ہفتے راولپنڈی سے لاہورآنا تھا کیوں کہ ان کے سسر کا انتقال ہوگیاتھا۔ انہیں شام پانچ بجے اطلاع ملی اور وہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر چھ بجے لاہور کے لیے روانہ تو ہوگئے لیکن یہ ساڑھے چار سےپانچ گھنٹے کا سفر 17گھنٹوں تک طویل ہو گیا۔

جب وہ بھیرہ انٹر چینج کے قریب پہنچے تو انہیں موٹر وے پولیس کی گاڑی اور رکاوٹیں نظر آئیں۔ کچھ گاڑیاں بھی وہاں رکی تھیں اوربعض انٹر چینج سے باہرکی طرف جارہی تھیں۔ شدید دھند میں گاڑیوں کی لائٹیں ہی بمشکل دکھائی دے رہیں تھیں۔

ان کی گاڑی کے پاس ایک پولیس اہلکار آیا اور انہیں انٹر چینج سے باہر جانے کا کہا، اور بتایا کہ دھند کے باعث حد نگاہ صفر ہے اس لیے موٹر وے پر سفر کی اجازت نہیں ہے۔

عبدالرحمن کے مطابق یہ اطلاع ملتے ہی ان کی اہلیہ مزید غم زدہ ہوگئیں اور وہ بھی منزل پر پہنچنے کی ترکیب سوچنے لگے۔ بہرحال پہنچنا کیونکہ ضروری تھا اس لیے انٹر چینج سے باہر نکل آئے۔ اب سڑک بھی مشکل سے دکھائی دے رہی تھی۔

ایک گاڑی کے پیچھے چلتے چلتے کچھ روشنی نظر آئی اور ہوٹل کا بورڈ دکھائی دیا۔ گاڑی وہاں روکی تو وہ ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معلوم ہوا یہ بھلوال کا علاقہ ہے۔ وہاں چائے وغیرہ پی کر روانہ ہوئے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہوٹل والوں نے وہیں رکنے کا مشورہ دیالیکن اہلیہ غم سے نڈھال تھیں، انہوں نے روانہ ہونے کی ضد کی۔

وہ لوگ روانہ ہوئے اور دوسری گاڑیوں کے پیچھے بیس تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے رہے۔  کافی دیر بعد پیٹرول ڈلوانے رکے تو معلوم ہوا کہ وہ کوٹ مومن کا علاقہ تھا۔

وہاں سے راستہ پوچھا تو آگے سیال موڑ تھا۔ ادھر پہنچے تو رات کے دو بج چکے تھے۔ وہاں کھانا وغیرہ کھایا تو ہوٹل ملازمین نے مشورہ دیاکہ آگے پنڈی بھٹیاں ہے وہاں تک راستہ خطرناک ہے، سفر نہ کریں تو بہتر ہوگا۔

انہوں نے چند گھنٹے بعد دوبارہ سفر شروع کردیا اورسکھیکی پہنچ گئے۔ صبح آٹھ نو بج چکے تھے، بچے سوئے تھے، بیوی بھی غم سے نڈھال، وہ بھی دن بھر ملازمت اور رات کی ڈرائیونگ سے تھک چکے تھے، نیند کا غلبہ تھا لیکن اس صورتحال نے نیند ہی اڑا رکھی تھی۔ سوچا نو بجے جنازہ ہے، اس سے پہلے پہنچ جائیں گے، سسرال سے بھی فون پر فون آرہے تھے۔

لیکن دھند سارے راستے اتنی شدید رہی کہ گاڑی اندھیرے میں چلانے کے برابر تھا۔ وہاں ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا اور دوبارہ چل پڑے۔ اتنے میں دھند بھی قدرے کم ہوئی لیکن گاڑی پھر بھی چالیس کی رفتار سے زیادہ چلانا مشکل تھا لہذا شیخوپورہ پہنچ گئے۔

وہاں سے لاہور پہنچے تو گیارہ بارہ بج چکے تھے، نماز جنازہ ادا ہوچکی تھی کیونکہ دس بجے کا اعلان کیا جا چکا تھا، میت قبرستان میں رکھی تھی تاکہ ان کی اہلیہ اور وہ مرحوم کا آخری دیدار کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان