موٹر وے پر خاتون کا ریپ: لاہور پولیس نے راہ گیر کو ہی مدعی بنا دیا

منگل اور بدھ کی درمیانی شب رنگ روڈ بذریعہ موٹر وے سفر کے دوران ایک خاتون کو دو ملزمان نے ریپ کا نشانہ بنایا تھا، جس پر موٹروے پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق  ملزمان نے گاڑی کے شیشے توڑ کر دروازہ کھولا۔(تصویر: لاہور  پولیس)

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں رات گئے رنگ روڑ جیسی محفوظ سمجھی جانے والی شاہراہ پر ایک خاتون سے گینگ ریپ کے مقدمے میں ایک راہ گیر کو مدعی بنا دیا گیا ہے، جو اس بات سے پریشان ہیں کہ پولیس نے ان کا نام ایف آئی آر میں کیسے اور کیوں شامل کرلیا۔

لاہور کے تھانہ گجر پورہ میں سردار شہزاد نامی ایک شخص کی مدعیت میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ لاہور سے رنگ روڈ بذریعہ موٹر وے سفر کے دوران پیش آیا۔

ایف آئی آر کے مطابق: 'متاثرہ خاتون نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب گجرانوالہ میں اپنے ایک عزیز کو فون کیا کہ ویرانے میں ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا ہے اور ان کے ساتھ دو بچے بھی ہیں، جس پر ان کے عزیز نے خاتون کو موٹر وے پولیس کی ہیلپ لائن 130 پر مدد کے لیے رابطے کا مشورہ دیا۔'

ایف آئی آر میں مدعی سردار شہزاد کے حوالے سے درج ہے کہ 'جب وہ اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر خاتون کی دی گئی لوکیشن پر پہنچے تو وہاں گاڑی موجود تھی لیکن ڈرائیور سائیڈ کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور گاڑی کے شیشوں پر خون کے نشانات موجود تھے جبکہ خاتون اور بچے وہاں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے اردگرد تلاش کرنا شروع کیا تو رنگ روڑ کی ایک جانب ویرانے سے خاتون بچوں کے ساتھ آتی دکھائی دیں۔'

ایف آئی آر میں درج ہے کہ 'خاتون نے بتایا کہ گاڑی بند ہونے پر وہ رکی ہوئی تھیں، تو دو مسلح افراد، جن کی عمریں 30 سے 35 سال تھیں اور جن کے پاس ایک ڈنڈا بھی تھا، انہوں نے شیشہ توڑ کر دروازہ کھولا، بچوں سمیت انہیں باہر نکالا اور سڑک کے ساتھ ویرانے میں لے جاکر انہیں ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ گاڑی سے ایک لاکھ روپے نقد رقم، سونے کے زیورات، اے ٹی ایم اور گاڑی کا رجسٹریشن کارڈ بھی لے گئے۔'

ایف آئی آر، جس میں ڈکیتی اور گینگ ریپ کی دفعات شامل ہیں، کے مطابق مدعی سردار شہزاد کی تحریری درخواست پر مقدمہ درج ہوا جبکہ مدعی نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

ایف آئی آر کا مدعی کون ہے؟

اس بارے میں جب ایس ایچ او تھانہ گجر پورہ شاہ زیب خان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش ڈی آئی جی انویسٹی گیشن خود کر رہے ہیں اور انہیں اس بارے میں علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا: 'میرے علم میں نہیں ہے کہ ایف آئی آر کا مدعی کون ہے اور کیسے بنایا گیا ہے۔'

ایس ایچ او نے مزید بتایا: 'پولیس کے بروقت پہنچنے یا نہ پہنچنے سے متعلق بھی مجھے کوئی علم نہیں ہے، تاہم ضروری کارروائی کی جارہی ہے اور جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف آئی آر میں درج مدعی سردار شہزاد سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے نمبر پر رابطہ کیا تو انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس والوں نے ان کا نام اور فون نمبر ایف آئی آر میں درج کر دیا ہے اور انہیں کوئی پانچ سو فون آچکے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نام اور نمبر ایف آئی آر میں بلاوجہ کیسے شامل کرلیا گیا؟ تو سردار شہزاد نے بتایا کہ واقعے کے وقت وہ رنگ روڈ سے گجرانوالہ میں واقع اپنے گھر آرہے تھے کہ انہوں نے ایک گاڑی کے پاس ڈولفن پولیس اور ریسکیو 1122کی ایمبولینس دیکھی تو وہ رک گئے۔

سردار شہزاد کے مطابق: 'اسی دوران پولیس نے مجھ سے تفصیلات لینا شروع کردیں اور نام، ولدیت، پتہ اور موبائل نمبر بھی معلوم کیا۔'

انہوں نے بتایا:  'میں نے یہ سمجھ کر تفصیلات دے دیں کہ شاید مشکوک سمجھ کر پوچھا جا رہا ہے۔ پھر پولیس جلد ہی خاتون کو ایمبولینس میں لے کر روانہ ہوگئی تو ہم بھی وہاں سے واپس آگئے۔'

لیکن جب دس پندرہ منٹ بعد انہیں فون آنا شروع ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کی تفصیلات ایف آئی آر میں درج کر دی گئی ہیں۔

مدعی بنائے جانے پر پولیس سے بات کرنے کے سوال پر سردار شہزاد نے کہا: 'پولیس سے بات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خود ہی فون آنا بند ہوجائیں گے۔ اگر پولیس سے بات کی تو ڈر ہے کوئی اور معاملہ نہ شروع ہوجائے۔'

پولیس کی کارکردگی پر سوالات اور ردعمل

واقعے کے منظر عام پر آتے ہی پولیس کارکردگی پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں اور سوشل میڈیا پر صارفین نے لاہور جیسے شہر میں اس طرح خاتون سے ریپ کو لاقانونیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی قرار دیا ہے۔

پہلے موٹر وے پولیس پر تنقید ہوئی کہ ہیلپ لائن پر کال کے باوجود موٹر وے پولیس خاتون کی مدد کو کیوں نہ پہنچی؟

اس حوالے سے ترجمان موٹر وے پولیس کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی ہے کہ رنگ روڈ موٹر وے پولیس کی حدود میں نہیں آتا، اس لیے وہاں موٹر وے پولیس نہیں پہنچ سکی۔

واضح رہے کہ لاہور رنگ روڈ کے ٹول پلازوں پر ٹوکن ٹیکس کی کٹوتی موٹر وے کے لیے بنائے گئے ای ٹیگ سے ہوجاتی ہے۔

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کی ایک رکن کی جانب سے بھی اس واقعے پر پنجاب اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا گیا ہے، جس میں ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب آئی جی پنجاب انعام غنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پولیس ملزمان کے گاؤں تک پہنچ گئی ہے اور جلد ہی انہیں گرفتار کر لیاجائے گا۔

جبکہ وزیراعظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے جبکہ 12 کے قریب مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور جلد ہی اصل ملزمان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان