موٹر وے ریپ کیس میں گرفتار ملزم کا اعتراف جرم

لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ موٹر وے ریپ کیس جیسے واقعات پر حکومت کوقوم سے معافی مانگنی چاہیے، سی سی پی او لاہور نے عدالت میں اپنے متنازع بیان پر معافی مانگ لی۔

ملزمشفقت علی(تصویر سی آئی اے لاہور)

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پیر کو موٹر وے ریپ کیس کے ایک ملزم شفقت علی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے جائے وقوعہ پر ملنے والے نمونوں سے میچ کر گیا ہے جبکہ ملزم نے خود اعتراف جرم بھی کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے بیان میں مزید امید ظاہر کی کہ دوسرا ملزم عابد علی بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

لاہور میں  سی آئی اے پولیس نے گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر پیر کو اوکاڑہ کے علاقے دیپالپور میں چھاپہ مار کر شفقت کو حراست میں لینے کے بعد ان کا ڈی این ٹیسٹ کروایا۔ پولیس حکام کے مطابق شفقت نے اعتراف جرم کیا ہے۔

دوسری جانب گذشتہ روزخود پولیس کے سامنے پیش ہونے والےملزم وقار الحسن شاہ کے برادر نسبتی محمد عباس نے بھی خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ عباس پر الزام ہے کہ وہ  واقعے کے دن جیو فینسنگ میں ٹریس ہونے والے وقار کے نام پر جاری موبائل سم استعمال کر رہے تھے۔

پولیس نے  کیس کے مرکزی ملزم عابد علی، جن کے  جائے وقوعہ پر ملنے والے نموں سے ڈی این اے کے نمونے میچ کرنے کا اعلان خود آئی جی پنجاب  نےکیا، تاحال پولیس کی گرفت میں نہیں آسکے۔

ادھر لاہور موٹروے پر ریپ کیس پرجوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے آصف محمود اور ندیم سرور نامی وکلا کی درخواست کی  آج سماعت کی۔ عدالت کے حکم پرسی سی پی او لاہور عمر شیخ بھی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے واقعے کے بعد خواتین کے اکیلے باہر نہ نکلنے کے بیان پر آئی جی کی جانب سے سی سی پی او کو جاری نوٹس طلب کیا، جو عدالت میں پیش کیاگیا۔ عدالت نے قرار دیاکہ آئی جی پنجاب نے لکھا کہ آپ کے خلاف کارروائی ہو گی مگر یہ نہیں بتایا کس قانون کے تحت ہو گی؟عدالتی حکم پر واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا نوٹیفیکشن بھی عدالت میں پیش کیاگیا۔

عدالت نے استفسار کیاکہ بتائیں یہ نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت بنایا گیا؟یہاں کمیٹی کمیٹی کھیلا جارہا ہے عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ اس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر کمیٹی بنائی گئی، جس پرعدالت نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا  کہ کمیٹی واقعے کے محرکات کے بارے میں تین دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔

درخواست گزار وکیل نے سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ سانحہ ساہیوال پر بھی کمیٹی بنی لیکن ہوا کچھ نہیں، اسی طرح مختاراں مائی کیس میں بھی کمیٹیوں کا کچھ نہیں بنا۔سماعت کے دوران سی سی پی او نے چیف جسٹس کے سامنے بیان دیا کہ نو تاریخ کی  رات  یہ واقعہ پیش آیا اور اسی وقت سے پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ میڈیا پر آ رہا ہے کہ جب اس خاتون نے فون کیا تو اسے کہا گیا کہ ایف ڈبلیو او سے رابطہ کریں ایف ڈبلیو نے کہا کہ 15 پر کال کریں، خاتون کی مدد میں تاخیر کیوں ہوئی؟ اس پر عمر شیخ نے جواب دیا کہ 'اگر آپ ہائی ویز کو دیکھیں تو چار قسم کی روڈ اتھارٹیز ہیں، رنگ روڈ اتھارٹی کمشنر کے زیر انتظام ہے، متاثرہ خاتون نے 103 پر فون کیا، ایف ڈبلیو اوسے ان کی کانفرنس کال ہوئی۔

'میجر صاحب نے نزدیک ترین موبائل ورکشاپ موو کروا دی،  کامن سینس ہے کہ مدد کے لیے15 پر فون کیاجاتا، 103 والے کو یا میجر صاحب ان چاروں کو 15 پر فون کرنا چاہیے تھا۔' اس پر چیف جسٹس نے کہا 'آپ اپنے ٹاپک تک رہیں، یہ اتھارٹیز مجھے نہ سنائیں،  خاتون کو کیوں ہر جگہ فون کرنا چاہیے تھا؟ہمیں پولیس کی کارروائی بتائیں۔'

سی سی پی او نے بیان دیا کہ واقعے کی کچھ دیر بعد ڈولفن فورس موقعے پر پہنچی اور ہوائی فائرنگ کی تو خاتون نے آواز دی، وہ بچوں کے ساتھ ایک طرف چھپی ہوئی تھیں۔' ہم نے ایس پی او کوفوری موقعے پر روانہ کیا۔ مجھے منٹ کے حساب سے وقت کا نہیں پتہ۔ خاتون نے کچھ وقت گزرنے کے بعد میڈیکل کروانے کی رضامندی ظاہر کی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا 'جب نامعلوم ملزموں کا معاملہ آئے تو ہم سب سے پہلے جیو فینسنگ کرتے  ہیں۔ ہم نے فنگر پرنٹس اورڈی این اے کے سیمپلز بھی بھجوا دیے۔ مرکزی ملزم کا تعلق کرول کے علاقے سے ہے۔ ہم نے 53 لوگوں کے ڈی این اے سیمپل حاصل کیے۔ '

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ملزم وقار شاہ کے بیان پر عباس نامی شخص گرفت میں آیا ہے، وقار شاہ نے کہا کہ میں ملزم نہیں ہوں، میرا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے۔ عابد علی کے خلاف تین مقدمات پہلے ہی درج ہیں، جس میں دو ڈکیتی اور ایک زنا کا مقدمہ ہے، زنا کے مقدمے میں ملزم عابد  راضی نامے پر بری ہوا۔'

اس پر فاضل جج نے واضع کیاکہ ایک شخص، جس نے دوران ڈکیتی ریپ کیا، اب لوگ صلح کر کے ملزموں کو بری کروا دیں تو عدالتیں کیا کریں؟ عدالت نے مزید کہا ملزموں کو پکڑیں، دہشت گردوں کو پکڑیں، شواہد اکٹھے کریں اور ملزموں کو سزائیں دلوائیں۔'موٹر وے جیسے واقعات پر حکومتوں کوقوم سے معافی مانگنی چاہیے، کسی کی بہو بیٹی سڑک پر سفر کرتے ہوئے خوف پیدا ہو گیا ہے وہ محفوظ تصور نہیں کرتیں۔'

چیف جسٹس نے سی سی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ بڑے عہدے کے آدمی کو اپنی زبان کا استعمال بڑی احتیاط سے کرنا چاہیے، آپ کے ان فقروں کو سن کر میں خود بہت پریشان ہوا تھا، رات کو اکیلے سفر کرنے سے پولیس اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں۔ جس پر سی سی پی او نے اپنے بیان پر عدالت کے سامنے معذرت کی۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم علی خان نے آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 16ستمبر تک ملتوی کر دی۔

اس سے پہلے سی سی پی او عمر شیخ نے گورنر پنجاب سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں واقعے سے متعلق متنازع بیان پر معافی بھی مانگی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان