’طالبان پر جامع حکومت کے قیام کے لیے مزید دباؤ ڈالیں گے‘

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کے تمام ارکان ایک ایسا افغانستان چاہتے ہیں جہاں خواتین کے حقوق کا احترام ہو، دہشت گردی کی پناہ گاہ نہ ہو اور تمام طبقات کی نمائندگی پر مشتمل جامع حکومت ہو۔

سلامتی کونسل کے تمام ارکان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتے ہیں: انتونیو گوتریس (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین نے افغانستان کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک پر بزور طاقت قبضہ کرنے والے طالبان پر وسیع البنیاد اور جامع حکومت کے قیام کے لیے مزید دباؤ ڈالیں گے۔

ان عالمی طاقتوں میں شامل چین اور روس نے گذشتہ ماہ طالبان کی فتح کو امریکہ کی شکست قرار دیا تھا اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

تاہم ان دو ممالک سمیت کسی بھی ملک نے تاحال طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے بعد عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صحافیوں کو بتایا کہ سلامتی کونسل کے تمام ارکان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتے ہیں جہاں انسانی ہمدردی کے تحت بھیجی جانے والی امداد بغیر مسائل اور امتیاز کے تقسیم کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ ایک ایسا افغانستان چاہتے ہیں جہاں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کیا جائے، ایک ایسا افغانستان جو دہشت گردی کی پناہ گاہ نہ ہو اور ایک ایسا افغانستان جس میں ایک ایسی جامع حکومت ہو جو آبادی کے تمام طبقات کی نمائندگی کرے۔‘

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور برطانیہ، فرانس اور روس کے وزرائے خارجہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر نیویارک میں سر جوڑ کر بیٹھے جبکہ ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے ایک گھنٹے سے زیادہ چلنے والے ان مذاکرات میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔

ایک امریکی عہدے دار نے برطانوی وزیر خارجہ لز ٹروس کی جانب سے بلائی گئی ملاقات کو تعمیری اور ہم آہنگی سے بھرپور قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ طالبان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کریں گے۔

امریکی عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے نہیں لگتا کہ چین سمیت کوئی بھی طالبان کی اس عبوری حکومت کی تشکیل سے مطمئن ہے۔‘

اجلاس سے قبل فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پانچوں طاقتیں افغانستان میں ایک جامع حکومت چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اتفاق ہر جگہ موجود ہے۔ چین اس سے قبل امریکہ کی جانب سے افغانستان کے اربوں ڈالرز کے اثاثے منجمد کرنے پر تنقید کر چکا ہے۔


افغانستان پرعائد معاشی پابندیاں جلد ختم ہونی چاہییں: چین

چین کے سٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا ہے کہ افغانستان پر عائد مختلف یک طرفہ پابندیاں جلد از جلد ختم کی جائیں۔

بدھ کو افغانستان کے حوالے سے جی 20 وزرائے خارجہ کے اجلاس میں وانگ کا حوالہ دیتے ہوئے چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان پر سے اقتصادی پابندیاں ختم ہونی چاہییں۔

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر قومی اثاثے ہیں جو ملک کے لوگوں کی ملکیت ہونے چاہییں اور انہیں اس کے اپنے لوگ استعمال کریں، اسے افغانستان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔‘

ایک طرف جہاں 15 اگست کو اشرف غنی حکومت کا تختہ الٹ کر افغان طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے 9.5 ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں اور بین الاقوامی قرض دہندگان بھی افغانستان سے دور ہیں، جنہیں خدشہ ہے کہ ان کی فراہم کی گئی رقم طالبان کے استعمال میں نہ آجائے، وہیں چین کا رویہ طالبان حکومت کے لیے بظاہر کچھ نرم نظر آتا ہے۔

چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے رواں برس جولائی کے آخر میں شمالی شہر تیانجن میں طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی، جس کے دوران طالبان نے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے یا افغان سرزمین کو چین مخالف طاقتوں کو استعمال کی اجازت نہ دینے کا عہد کیا تھا۔

ایسی بھی رپورٹس ہیں کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی افغانستان سے امریکی دستوں کی واپسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے پُر کرنا چاہتی ہے۔

چین سے قبل پاکستان بھی متعدد بار عالمی طاقتوں سے مطالبہ کرچکا ہے کہ وہ طالبان کے کنٹرول حاصل کرلینے کے بعد افغانستان کے اربوں ڈالرز کے اثاثوں کو غیر منجمد کریں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں افغانستان سے متعلق مذاکرات سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ سب سے فوری ترجیح پڑوسی ملک کو مزید گہرے معاشی زوال سے بچانا ہے جو کہ انسانی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں بحران سے نمٹنے کے لیے فنڈز کی اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رپورٹرز کو بتایا: ’ایک طرف آپ بحران سے بچنے کے لیے تازہ فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ پیسہ جو ان کا ہے، وہ اسے استعمال نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے کہا: ’میرا خیال ہے کہ اثاثے منجمد کرنے سے صورت حال میں کوئی مدد نہیں ہو رہی۔ میں عالمی طاقتوں سے پُرزور اصرار کرتا ہوں کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور اثاثے غیر منجمد کریں۔‘

شاہ محمود قریشی کے مطابق: ’یہ ایک اعتماد سازی کا پیمانہ بھی ہوگا اور یہ مثبت رویے کی حوصلہ افزائی بھی کرسکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا