افغان بحران کے حل کے لیے چین کے تین نکات کیا ہیں؟

چین کے صدر کہتے ہیں کہ افغانستان خطے میں اہم ملک ہے اور اسے الگ تھلگ نہیں کرنا چاہیے۔

چین نے افغان مسئلے کے حل کے لیے تین نکات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران کے شکار ملک میں استحکام لانے پر کام کیا جا سکتا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے تاجکستان میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس اور کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) کے اجلاس میں افغان تنازعے کے حل کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔

چائنا میڈیا گروپ میں ہفتے کو چھنے والے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے روئٹر نے رپورٹ کیا کہ چینی صدر نے کہا کہ ’ہمیں افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے افغان سربراہی میں امن عمل کو جاری رہنے دینا چاہیے اور افغان عوام کو خود اپنے ملک کا مستقبل طے کرنے دینا چاہیے۔‘   

صدر جن پنگ نے کہا کہ افغانستان میں صورت حال افراتفری سے بدل کر استحکام کی جانب گئی ہے اور اس کے قریبی ہمسائے ہونے کے ناطے ایس سی او اور سی ایس ٹی او کے رکن ممالک کو برادری اور مشترکہ مستقبل بنانے کے غرض سے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔

انہوں نے پہلی بار افغان صورت حال میں بہتری لانے کے لیے چین کے تین نکات پیش کیے۔

پہلا، افغانستان میں تنازعے کو جلد سے جلد ختم کیا جائے تاکہ سیاسی حل تک ترجیحی بنیادوں پر پہنچا جاسکے۔ ’کسی بھی ملک کے معاملات کا فیصلہ اس کے لوگوں کو کرنا چاہیے۔‘

دوسرا، ملک کو بین الاقوامی برادری میں واپس لانے کے لیے افغانستان سے روابط اور بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا اہم ہے۔

صدر جن پنگ کے مطابق افغانستان خطے میں اہم ملک ہے اور اسے الگ تھلگ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کی تجویز ہے کہ ملک میں تمام دھڑوں سے بات چیت کی جائے تاکہ ایک مشترکہ سیاسی ڈھانچہ قائم ہو جو اعتدال پسند اور سمجھ دار ملکی اور خارجہ پالیسیاں اپنائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسرا، تمام ممالک کو افغان عوام کی مشکلات آسان کرنے میں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ چین افغانستان کی انسانی بنیادوں پر امداد کی ہامی بھر چکا ہے جبکہ وہ ممالک جن کی وجہ سے آج ملک کا یہ حال ہے، انہیں بھی قدم بڑھانا چاہیے۔

صدر کا کہنا تھا کہ چین دنیا کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ ہی آج افغانستان میں بحران کی وجہ ہے۔

’وہ کسی بھی ملک سے زیادہ ذمہ دار ہیں کہ افغان لوگوں کو معاشی اور انسانی امداد فراہم کریں اور ان ممالک کی بھی امداد کریں جو پناہ گزینوں کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔‘

صدر نے کہا: ’انہیں یہ بحران پیدا کرنے کے بعد اسے افغان عوام اور ہمسائیوں پر منتقل کر کے نہیں جانا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا