آذر بائیجان کو ’تیسرے ملک‘ سے محتاط رہنے کی ایرانی وارننگ

سفارتی کشیدگی کی ایک حالیہ لہر میں ایرانی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے آذربائیجان، پاکستان اور ترکی کی مشترکہ فوجی مشقوں پہ تشویش کا اظہار کیا گیا جس کے بعد آذربائیجان کی سرحد پر ایران نے اپنی فوجی طاقت بڑھا دی۔

کاراباخ جنگ کے دوران ایران نے آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کی بحالی کی واضح طور پر حمایت کی(تصویر: اے ایف پی)

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران  ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے مابین مختلف مسائل پر ایک بحران کھڑا ہوا ہے جسے بعض ایرانی عہدیدار باکو میں غیر ملکی موجودگی سے منسوب کرتے ہیں۔

یہ واقعہ اگست کے اوائل میں شروع ہوا جب ایران میں سوشل میڈیا صارفین نے گوریس کپان ہائی وے پر آذربائیجانی افواج کی ایرانی ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاع دی۔

ایرانی ٹرک ایران سے آرمینیا جانے والا سامان لے کر جا رہے تھے لیکن 2020 کی جنگ کے دوران کاراباخ کی سرحدوں میں تبدیلی کی وجہ سے آذربائیجان کے علاقے سے گزرنا پڑا۔ 

تہران ٹائمز کے مطابق آذربائیجان نے مبینہ طور پر ایرانی کمرشل ٹرکوں پر حیران کن ٹیکس عاید کیا جس پر ایرانی تاجروں کی طرف سے تنقید کی گئی۔

آذربائیجان نے باکو میں ایرانی سفیر سید عباس موسوی کو مدعو کر کے واقعے کی تصدیق کی۔

گیارہ اگست کو ، آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ موسوی کو ٹرکوں کے معاملے پر وزارت میں ’مدعو‘ کیا گیا تھا نیز ٹرکوں کے غیر قانونی سفر کے حوالے سے سامنے آنے والے ناپسندیدہ حقائق کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی۔

نوٹ میں بغیر اجازت آذربائیجان کے علاقے کاراباخ میں ایران سے تعلق رکھنے والی مختلف گاڑیوں کے حالیہ مسلسل داخلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ 

ایران غیر محسوس طریقے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھا جب کہ آذربائیجان نے ایران کی تجارتی گاڑیوں کے لیے شاہراہ کو بند بالاخر بند کر دیا۔ 

اگست کے آخر میں ایک مقامی ایرانی عہدیدار نے آذربائیجان کے سٹریٹجک روڈ کی بندش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گوریس کپان روٹ کے آذربائیجانی حصے کے اندر 120 سے زائد ایرانی ٹرک اور مسافر کاریں روک دی گئی ہیں۔ 

اس سب کے درمیان چند دیگر مسائل نے تہران اور باکو کے درمیان صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ آذربائیجان نے باکو میں ترکی اور پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔

ایک ایسا اقدام جس نے ایران کو بحیرہ کیسپین میں غیر قطبی ریاستوں کی فوجی موجودگی کی قانونی حیثیت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنے پر اکسایا۔ 

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا کہ بحیرہ کیسپین کے قانونی کنونشنوں کے مطابق اس سمندر میں غیر ساحلی ریاستوں کی فوجی موجودگی غیر قانونی ہے۔ 

آذربائیجان نے نکیچیوان کے آذربائیجانی علاقے میں ترکی کے ساتھ ایک اور مشترکہ فوجی مشق بھی کی۔ 

بعد ازاں آذربائیجان کے قانون سازوں نے ایران کے خلاف دشمنانہ تبصروں کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں تہران کے خلاف سخت دھمکیاں دی گئیں۔

ایک آذربائیجانی قانون دان نے گرجتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے باکو کے خلاف کوئی دشمنانہ اقدام کیا تو پاکستان کی فوج تہران پر حملہ کرے گی، ایک اور قانون ساز نے ایران کے لیے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے۔ 

ان ریمارکس نے تہران میں عہدیداروں کو مشتعل کیا اور حکام پر آذربائیجان کو جواب دینے کے لیے دباؤ بڑھایا۔ اس طرح ایرانی بیانات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔

قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی میں بیٹھے ایرانی پارلیمنٹ کے ایک اہم رکن فدا حسین ملکی نے آذربائیجان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی ’مشکوک حرکتیں‘ بند کرے۔

فدا حسین نے فارس نیوز کو بتایا ’آذربائیجان، پاکستان اور ترکی کی حکومتوں کی طرف سے کی جانے والی مشقیں تشویشناک ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایران آذربائیجان کی سرحدوں پر صورتحال کو قریب سے دیکھ رہا ہے اور ’کچھ مشکوک حرکتوں کے بارے میں خبردار کرتا ہے۔‘

اس بات پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ارمینیا کے ساتھ ایران کی تجارت کو روکنا درست کام نہیں تھا ، فدا حسین نے کہا ’آرمینیا ایک آزاد ملک ہے اور ایران کے ساتھ خطے کے تجارتی تعلقات میں ہے، باکو کو اپنے حالیہ اقدامات پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ناپسندیدہ ممالک کو کوئی بہانہ فراہم نہ کیا جائے۔

انہوں نے ترکی اور پاکستان پر بھی زور دیا کہ وہ ایران کے ساتھ آذربائیجان میں اپنے اقدامات کو مربوط کریں۔ 

دیگر ایرانی قانون ساز بھی اپنے آذربائیجان کے ہم منصبوں کے خلاف رد عمل میں دو ٹوک تھے۔ 

ایک قانون ساز احمد نادری نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’اپنے قد سے بڑے کام مت کریں، ایران کی خاموشی کو عظمت کی علامت سمجھیں اور ایران کے ساتھ اچھی ہمسائیگی برقرار رکھنے میں اپنی ذمہ داری پر توجہ دیں۔ بصورت دیگر صورت حال تشویش ناک ہو گی۔‘

چند دیگر ایسے بیانات کے بعد ایران نے آذربائیجان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر فوجی کمک بھیج دی تاکہ طاقت کا واضح مظاہرہ کیا جا سکےاور خطے میں اپنی فوجی مشقیں شروع کر دیں۔ 

سفارتی طور پر ، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اپنے آذربائیجانی اور ترک ہم منصبوں سے ملاقات کی۔ 

عبداللہیان اور ان کے ترک ہم منصب مولود چاوش اوغلو نے تہران میں ایران ، آذربائیجان اور ترکی کے سہ فریقی اجلاس پر اتفاق کیا۔ آذربائیجان کے وزیر خارجہ جیہون بیراموف نے عبداللہیان کے ساتھ ملاقات میں اجلاس کے انعقاد کا خیرمقدم کیا۔

بیراموف نے عبداللہیان کو بتایا کہ جمہوریہ آذربائیجان کی جانب سے شاہین مصطفائیف اپنے ایرانی ہم منصب سے دونوں ممالک کے مشترکہ کمیشن کے اندر رابطہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ایران اور جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان تعلقات انتہائی اہم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبداللہیان نے اپنے آذربائیجانی ہم منصب کے ساتھ ایرانی ٹرکوں کی آمدورفت اور ٹریفک کی سہولت کے ساتھ ساتھ آذربائیجان پولیس کے زیر حراست دو ایرانی ڈرائیوروں سمیت کچھ قونصلر مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ 

دونوں اعلیٰ سفارت کاروں نے فریقین کے درمیان رابطوں کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق کیا۔

عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ کچھ تیسرے فریق کو دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے تیسرے فریق کا نام نہیں لیا لیکن کہا کہ ’اسرائیل جنوبی قفقاز کے علاقے میں مساوات کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور آذربائیجان کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔‘ 

نیز ، صوبہ اردبیل میں ایران کے سپریم لیڈر کے نمائندے آیت اللہ سید حسن آملی نے کہا کہ اسرائیل ایران کے خلاف سازشیں کرنے آذربائیجان آیا ہے۔ 

سینئر مقامی ایرانی اہلکار آیت اللہ آملی،  جو عام طور پر نماز جمعہ کے بعد ایران-آذربائیجان کے جھگڑوں کو حل کرتے ہیں نے کہا کہ ’ایران-آذربائیجان سرحدوں کے ساتھ پاسداران انقلاب کی مشقیں اسرائیل کو پیغام دیتی ہیں کہ اسے کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ ایران نے آذربائیجان میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر طویل عرصے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے تاہم دونوں ممالک تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ 44 روزہ کاراباخ جنگ کے دوران ایران نے آذربائیجان کی اپنی علاقائی سالمیت کی بحالی کی واضح طور پر حمایت کی لیکن اس حمایت کے باوجود باکو میں کچھ لوگ ایران کو آرمینیا کے حامی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا