جڑواں بچے ہم شکل کیسے ہوتے ہیں؟ سائنسدان جواب جاننے کے قریب

وریجے یونیورسیٹی ایمسٹرڈیم کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں ایک جیسے جڑواں بچوں کے ڈی این اے میں ایک جیسے ’سگنیچر‘ یا خصوصیت کا پتہ چلا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ بیضے کی تقسیم کا یہ عمل جس کے نتیجے میں ایک جیسے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں اس عمل کے برعکس ہے جب دو الگ الگ بیضے دو سپرمز کے ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے الگ جڑواں پیدا ہوتے ہیں (پیکسیلز /کلائڈر ڈیوک)

سائنس دان شاید یہ جاننے کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ ایک ہی بیضے سے جڑواں بچے ہم شکل کیسے بن جاتے ہیں۔

نیدرلینڈز کے محققین اس بات کی کھوج کر رہے ہیں کہ رحم مادر میں کس طرح ایک فرٹلائیڈز بیضہ جسے زائگوٹ کہا جاتا ہے دو ایمبروز میں تقسیم ہوجاتا ہے جس میں ہر ایک میں نمایاں طور پر ایک ہی جیسے جین پائے جاتے ہیں۔

کسی خاتون کے بیضے کے تقسیم ہونے کی وجہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہے لیکن اس حوالے سے بنیادی نظریہ یہ رہا ہے کہ یہ عمل بے ترتیب ہی ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ بیضے کی تقسیم کا یہ عمل جس کے نتیجے میں ایک جیسے جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں اس عمل کے برعکس ہے جب دو الگ الگ بیضے دو سپرمز سے ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے الگ جڑواں پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر خاندانوں میں یہی عمل ہوتا ہے اور ایک ہی بیضے کی تقسیم سے پیدا ہونے جڑواں اتنے عام نہیں۔

وریجے یونیورسیٹی ایمسٹرڈیم کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہیں ایک جیسے جڑواں بچوں کے ڈی این اے میں ایک جیسے ’سگنیچر‘ یا خصوصیت کا پتہ چلا ہے۔

ڈچ سائنس دانوں کے مطالعے میں ایک جیسے جڑواں بچوں کے ڈی این اے میں ایپی جینیٹک تبدیلیوں (ماحول اور رویوں سے جینز کے کام کرنے میں ہونے والی تبدیلی) کو دیکھا جو جینز کی ترتیب کو نہیں بلکہ ان کے اظہار کو کنٹرول کرتے ہیں۔

انہیں معلوم ہوا کہ دنیا بھر سے ایک جیسے جڑواں بچوں کے جینوم میں 834 پوائنٹس پر ایک جیسے کیمیائی نشانات موجود ہیں جو ان کے ڈی این اے کے مکمل سیٹ میں سے ہر ایک پر ہیں۔

یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ کیا ڈی این اے پر کیمیائی نشان ہی زائگوٹ کو تقسیم کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن سائنس دانوں نے کہا کہ یہ اس حوالے سے ایک قابل فہم نظریہ ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق میں شامل اسسٹنٹ پروفیسر جینی وان ڈونگین نے کہا: ’ہم نے ایک میکانزم کی نشاندہی کی ہے جو خلیوں کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تبدیلیاں خلیوں کے الگ ہونے کے بعد پیدا ہوئی ہوں۔‘

محققین کو امید ہے کہ ان مشترک نشانات کی تلاش ایسے کئی لوگوں کے لیے بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے جن کا خیال ہے کہ ان کا بھی ایک جڑواں بہن یا بھائی تھا جو رحم مادر میں ہی ’غائب‘ ہو گیا تھا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دریافت 80 فیصد درستگی کے ساتھ اس بات کا تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ آیا کوئی ایک ایسا بچہ ہے جس کا ہو بہو جڑواں بہن یا بھائی پیدائش کے وقت ان سے علیحدہ ہو گیا تھا یا ایسے والدین جو اس بات سے بے خبر ہیں کہ انہوں نے اپنے جڑواں بچے کو رحم میں کھو دیا تھا۔ ایسے گمشدہ جڑواں بچے کو سائنسی لغت میں وینشنگ ٹووین سنڈروم کہا جاتا ہے۔

یہ سنڈروم 12 فیصد حمل میں پیدا ہوتا ہے لیکن صرف دو فیصد سے کم مائیں دونوں بچوں کو پیدائش کی مدت تک لے جانے میں کامیاب ہوتی ہیں، اسی لیے بہت سے لوگ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے ہاں جڑواں بچے تھے۔

یہ تحقیق سائنسی جریدے ’نیچر کمیونیکیشن‘ میں شائع ہوئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس