ڈاکٹر قدیر، قوم کے ہیرو سے متنازع شخصیت تک کا سفر

پاکستان کی تاریخ میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو گزرے ہوں، لیکن اپنے کیریئر کے آخری دنوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان متنازع بن گئے۔

یہ 2004 کی بات ہے۔ ایک شام اچانک ٹیلی ویژن لگایا تو سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیٹھے ہوئے بات کرتے نظر آئے۔

فرق اتنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر، جن کے چہرے پر ہمیشہ پراعتماد مسکراہٹ کھلی رہتی تھی، اور آنکھوں میں چمک ہوا کرتی تھی، وہی ڈاکٹر قدیر اس وقت یوں بجھے ہوئے تھے جیسے کوئی بیماری گزار کے آئے ہوں، اعتماد ان سے کہیں دور بچھڑ گیا تھا اور وہ کیمرے سے نظریں ملانے سے کترا رہے تھے۔

اس ویڈیو میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہی ایٹمی ٹیکنالوجی کو دنیا کے مختلف ملکوں تک پھیلانے کے قصوروار تھے اور یہ کام وہ خود اپنی مرضی سے کرتے رہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو گزرے ہوں، لیکن اسی دیومالائی ہیرو جیسی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر قدیر خان کی ایسی بلندی کے بعد ایسی پستی بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔

مغرب میں منفی کردار کے طور پر جانے جانے کے باوجود وہ پاکستانیوں کے حقیقی ہیرو تھے، جنہوں نے عالمی دباؤ کی موجودگی میں پاکستان کے لیے ایٹم بم بنا کر اسے پڑوسی ملک بھارت کی کئی گنا بڑی عسکری قوت کے خلاف ممکنہ مزاحمت (ڈیٹرنس) فراہم کی۔ 

سکول کے استاد کے بیٹے

 عبدالقدیر خان المعروف اے کیو خان متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال (جو موجودہ وقت میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کا صدر مقام ہے) میں یکم اپریل 1936 کو سکول کے استاد عبدالغفور اور زلیخا کے ہاں پیدا ہوئے۔  

اے کیو خان ابھی محض 11 سال کے تھے کہ متحدہ ہندوستان نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی، جس کے نتیجے میں دو الگ ملک بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔  

بھوپال میں ہی 1952 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد عبدالقدیر خان پاکستان منتقل ہوئے، اور کراچی میں رہائش اختیار کی، جہاں انہوں نے 1956 میں ڈی جے سائنس کالج سے طبیعات میں گریجویشن مکمل کی۔ 

کچھ عرصہ کراچی کی شہری حکومت میں ملازمت کے بعد آپ 1961 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ہالینڈ چلے گئے، جہاں 1967 میں مٹیریلز ٹیکنالوجی میں ماسٹر آف سائنس (ایم ایس) کی، اور اس کے بعد بیلجئیم کی لیوین یونیورسٹی سے 1972 میں دھاتوں سے متعلق انجینیئرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔  

پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پہلی نوکری ایمسٹرڈیم میں فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری کے ساتھ کی، تاہم جلد ہی وہ ایٹمی بجلی گھروں کے لیے جوہری ایندھن کے لیے گیس سنٹری فیوج طریقہ استعمال کرنے والے یورینکو گروپ سے منسلک ہو گئے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ نے 1964 میں برطانوی خاتون ہینڈرینا ریٹرنک سے شادی کی، جو جنوبی افریقہ میں ڈچ والدین کے ہاں پیدا ہوئی تھیں، جبکہ ان کی پرورش زیمبیا میں ہوئی تھی۔ 

پاکستان کا جوہری پروگرام 

مئی 1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دل میں پاکستان کے لیے ایٹم بم بنانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کی خواہش پیدا ہوئی۔  

دسمبر 1974 میں ان کی ملاقات اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی، جس میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی قیادت اور چوٹی کے جوہری سائنس دانوں کو یورینیم کی افزودگی سے متعلق سمجھایا۔ 

اس سے قبل پاکستان کا جوہری پروگرام 1972 سے منیر احمد خان کی قیادت میں پلوٹونیم کی افزودگی کی بیناد پر کام کر رہا تھا۔ 

ابتدا میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورینکو گروپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے پاکستان کے جوہری پروگرام میں مدد فراہم کرتے رہے، جس کے باعث گروپ میں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، اور آپ 70 کی دہائی کے وسط میں پاکستان انرجی کمیشن آف پاکستان (پی اے ای سی) کے تحت ملک کے جوہری بم پروگرام کے افزودگی ڈویژن سے باقاعدہ منسلک ہو گئے۔ 

ایٹم بم پروگرام کے ساتھ رفاقت کے دوران ڈاکٹر قدیر یورینیم کی افزادگی پر زور دیتے رہے، جس کے باعث ان کے دوسرے سائنس دانوں خصوصاً منیر احمد خان کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے۔ 

ڈاکٹر عبدالقدیر، جو طویل عرصے تک پاکستان کے جوہری پروگرام کے سربراہ رہے، ملک کے سائنس دانوں کی کمیونٹی میں ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

اکثر سائنس دان اکثر ایٹم بم بنانے میں ان کے کردار سے اختلاف رکھتے ہیں، اور ان پر خود ستائشی کا الزام لگاتے ہیں۔ 

پاکستان نے 28 مئی 1998 کو پہلی مرتبہ جوہری تجربات کیے، جن کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلا شرکت غیر کریڈیٹ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 

یورینکو گروپ کے ساتھ کام کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یورینیم افزودگی اور سینٹری فیوج مشین پر کام کرنے کا موقع ملا، جس نے ان کے حمایتیوں کے خیال میں پاکستان کے جوہری میدان میں کامیابیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 

پاکستان کے جوہری پروگرام میں کردار ادا کرنے کے علاوہ ڈاکر عبدالقدیر خان نے پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو کو دوبارہ منظم کرنے، اور خلائی پروگرام، خصوصاً پہلے پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل پروجیکٹ اور سیٹلائٹ لانچ وہیکل میں اہم کردار ادا کیا۔ 

آپ نے پاکستان میں کئی انجینیئرنگ یونیورسٹیوں کے قیام میں بھی ایک اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینیئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں میٹلرجی اینڈ میٹریل سائنس انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا۔  

جوہری پھیلاؤ کا الزام 

عبدالقدیر خان 2004 میں ایک بین الاقوامی سکینڈل کے مرکزی کردار کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے، جس میں ان پر غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے الزامات لگے۔ 

 

2003 میں اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ادارے واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ بعد ازاں سرکاری ٹی وی پر آ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غیر قانونی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے جرم کا اعتراف کیا جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔

فروری 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی نظر بندی ختم کرنے کے احکامات جاری کیے اور کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر ایک آزاد شہری ہیں۔ عدالتی حکم پر ان کی نظر بندی تو ختم کر دی گئی لیکن وہ اپنی نقل و حرکت کے بارے میں حکام کو مطلع کرنے کے پابند تھے اور ہر وقت سکیورٹی کے حصار میں رہتے تھے۔ امریکہ کی اس وقت کی حکومت نے پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اس سلسلے میں ثبوت پیش کیے، اور ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے اعتراف بھی کیا، جسے بعد ازاں انہوں نے دباؤ میں لیا جانے والا بیان قرار دیا۔ 

پاکستان حکومت نے امریکہ کے اصرار کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر کو اس کے حوالے نہیں کیا، بلکہ انہیں اسلام آباد میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا، جسے کئی سال بعد اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ختم  کرنا پڑا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان