پی آئی اے اور ایئرکرافٹ انجینیئروں میں تنازع ہے کیا؟

قومی ایئر لائن اور انجینیئروں کے درمیان تنازعے کی وجہ سے اب تک متعدد پروازیں متاثر ہو چکی ہیں جس سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا مسافر طیارہ 3 اکتوبر 2024 کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر موجود ہے (روئٹرز / اختر سومرو)

پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ایئرکرافٹ انجینیئرز نے مطالبات پورے نہ ہونے پر پیر کی شام سے کام چھوڑ رکھا ہے، جس سے اندرون اور بیرون ملک پروازیں متاثر ہو رہی ہیں اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر طیاروں کی کلیئرنس نہ ہونے کے باعث عمرہ زائرین سمیت بین الاقوامی پروازوں کی آمدورفت میں مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔

اس کے باعث اب تک متعدد پروازیں تاخیر سے روانہ ہوئی ہیں یا پھر منسوخ ہو چکی ہیں۔ البتہ دوسری جانب ایئرلائن انتظامیہ آپریشن جاری رکھنے کا دعوی کر رہی ہے۔

صدر ایئرکرافٹس انجینیئرز ایسوسی ایشن علی جدون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انتطامیہ عملہ پورا نہیں کر رہی، انجینیئرز کو سویپر اور ٹیکنیشنز کی جگہ بھی خود کام کرنا پڑ رہا ہے۔ پرزے بھی نئے دستیاب نہیں جس سے ہمارے کئی انجینیئرز ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ہمارے ساتھ انتظامیہ کا رویہ بھی بہت سخت ہے، مسائل حل کرنے کی بجائے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ہم نے تنگ آ کر پیر کی شام سے مسافروں کی زندگیاں بچانے کے لیے کام بند کر رکھا ہے۔‘

ترجمان پی آئی اے نے اس حوالے سے بیان میں کہا کہ ’پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بحال کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی طبقے کی جانب سے مسافروں کو زحمت اور پروازیں کی روانگی میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

ایئرپورٹ ریکارڈ کے مطابق ایئرکرافٹ انجینیئرز کےاحتجاج سے قومی ایئر لائن کی متعدد پروازیں متاثر ہوئی ہیں، جب کہ پی آئی اے کی بین الاقوامی پروازیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ لاہور سے مدینہ، کراچی روٹس پر پی کے747 اور 744 پروازیں منسوخ جبکہ اسلام آباد، جدہ، پشاور روٹس پر پی کے741 اور736 پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔

ترجمان پی آئی اے کے مطابق ’انتظامیہ نے متبادل ذریعے سے آپریشن چلا دیا ہے۔ پی کے 245 اسلام آباد  تا دمام، پی کے 761 اسلام آباد تا جدہ پروازیں روانہ کر دی گئی ہیں۔ دیگر پروازوں کی بھی ٹیک لاگز کلیئر کروا کر روانہ کی جا رہی ہیں، انتظامیہ ائیر پورٹس پر موجود ہے۔‘

ہمیں سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں: انجینیئرز

علی جدون کے بقول، ’ملک بھر میں ایئرکرافٹ انجینیئرز نے کام چھوڑ رکھا ہے۔ ہمیں سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں نہ ہی ماتحت عملہ دیا جاتا ہے۔ ٹیکنیشن اور سویپر بڑی تعداد میں نوکری چھوڑ چکے ہیں، نئی بھرتی نہیں کی گئی۔ ہمارا ایک ساتھی اسلام آباد ایئر پورٹ پر کام کے دباؤ کی وجہ سے جان سے چلا گیا، کئی بیمار پڑے ہیں۔ بین الاقوامی فلائٹس میں اضافہ کیا جا رہا ہے لیکن ہمیں نہ پرزے فراہم کیے جا رہے ہیں اور نہ ہی عالمی معیار کے اوزار فراہم کیے گئے۔ جہازوں کی کلیئرنس ہم نے دینی ہے اور جب کوئی خرابی آئے تو ہمارے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔‘

علی کے بقول، ’ہم تو خود چاہتے ہیں پی آئی اے کی نجکاری کل کی بجائے آج ہو جائے، کوئی مالک تو بنے گا۔ اب تو کوئی بھی مسائل حل کرنے یا بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ہم سول ایوی ایشن سے لائسنس یافتہ 12 سو انجینیئرز ہیں، ہمارے سر پر ہر وقت کام کا بوجھ رہتا ہے۔ پھر بھی ہمارے سیفٹی جیسے سنجیدہ مسائل حل کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔‘

ترجمان پی آئی اے نے منگل کو جاری وضاحتی بیان میں کہا کہ ’سوسائٹی آف ایئر کرافٹ انجینیئرز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد پی آئی اے کی نجکاری، جو اپنے حتمی مراحل میں ہے، کو سبوتاژ کرنا ہے۔ سیفٹی کا بہانہ بنا کر ایک منصوبے کے تحت بیک وقت کام چھوڑنا ایک مذموم سازش ہے۔ جس کا مقصد پی آئی اے کے مسافروں کو زحمت دینا اور انتظامیہ پر ناجائز دباؤ ڈالنا ہے۔‘

ترجمان کے بقول، ’پی ائی اے میں لازمی سروسز ایکٹ نافذ ہے جس کے تحت ہڑتال یا کام چھوڑنا قانونی طور پر جرم ہے۔ تمام ایسے عناصر جو ایک سازش کے تحت ایسی کارروائیوں میں مشغول ہیں یا ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں، کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تاہم انتظامیہ متبادل انجینیئرنگ کی خدمات دوسری ایئر لائنز سے حاصل کر رہی ہے اور جلد ہی تمام پروازیں روانہ کردی جائیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی آئی اے شعبہ انجینیئرنگ سے وابستہ عہدیدار شاہد خان نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نہ صرف پی آئی اے بلکہ ہر ایئر لائن میں ایئرکرافٹ انجینیئرز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ انہیں انجینیئرنگ کی ڈگری کے بعد سول ایوی ایشن سے باقائدہ لائسنس حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہیں تربیت دی جاتی ہے اس کے بعد فلائٹ آپریشن کے لیے سلیکشن ہوتی ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق کوئی بھی طیارہ اس وقت تک اڑان نہیں بھر سکتا جب تک متعلقہ ایئرکرافٹ انجینیئر کلیئرنس فارم پر دستخط نہیں کرتا۔‘

شاہد کے بقول، ’اندرون و بیرون ملک آنے جانے والی تمام فلائٹس کی فٹنس برقرار رکھنا خرابیاں دور کرنا اسی انجینیئر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر دوران پرواز کسی جہاز میں کوئی خرابی آئے تو اس کا ذمہ داربھی ایئرکرافٹ انجینیئر ہوتا ہے۔ جب کوئی فلائٹ اترتی ہے، تو پائلٹ فلائٹ سے متعلق جو بھی صورت حال ہو انہیں آگاہ کرتا ہے اس شکایت کو دور کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح جب کوئی فلائٹ روانہ ہوتی ہے تو اس کا فیول، انجن وغیرہ سب کچھ ایئرکرافٹ انجینیئر ہی کرتا ہے۔ پائلٹ اس وقت تک طیارہ نہیں چلا سکتا جب تک اسے ڈیوٹی پر تعینات ایئرکرافٹ انجینیئر کا دستخط شدہ فارم موصول نہ ہو جائے۔‘    

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان