کیا بھارتی جوہری مواد غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے؟

سال رواں کے دوران بھارت میں تین ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبینہ طور پر چوری شدہ تابکاری مواد ضبط کیا۔  

ایک سائیکل سوار شخص بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے نورورا میں واقع نورورا ایٹمی پاورسٹیشن کے قریب کچی سڑک سے گزر رہا ہے (فائل فوٹو: اےا یف پی)

پاکستان نے بھارت میں جوہری اور دیگر تابکاری مواد کے پکڑے جانے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پڑوسی ملک میں ایسے خطرناک اور نازک مواد کی حفاظت کے نظام کو ناکافی قرار دیا ہے۔ 

اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ نے منگل کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ایسے واقعات بھارت میں جوہری مواد کو محفوظ بنانے کے لیے ناکافی انتظامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ بھارتی حکام نے گذشتہ ہفتے صوبہ مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ کے نیتا جی سبھاش چندر ایئرپورٹ پر دو افراد کے قبضے سے 250 گرام سے زیادہ وزن کے چار چمکیلے پتھر برآمد کیے تھے، جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی مہنگا تابکاری مواد کیلیفورنیم ہے۔  

جن دو افراد سے یہ چمکیلے پتھر برآمد ہوئے ان کی شناخت اتیش گھوش اور شیلن کرماکر کے طور پر ہوئی تھی۔ 

سال رواں کے دوران بھارت میں پیش آنے والا یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبینہ طور پر چوری شدہ تابکاری مواد ضبط کیا۔  

اس سال مئی میں بھارتی حکام نے ممبئی میں دو افراد سے سات کلو گرام یورینیم برآمد کی تھی، جب کہ جون میں بھی کچھ لوگوں سے چھ کلوگرام یورینیم پکڑی گئی تھی۔ 

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات حادثاتی ہوسکتے ہیں، تاہم اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں جوہری مواد کی حفاظت کے نظام میں کمی موجود ہے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ بھارت میں نیوکلیئر تنصیبات کی حفاظت کا نظام بہت زیادہ بہتر نہیں ہے اور اس میں کمپرومائز ہوا ہے، تبھی تو یہ مواد باہر نکل سکا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھارت اور پڑوسی ملکوں خصوصاً پاکستان کے لیے واقعتاً تشویش کی بات ہے، کیونکہ اس جوہری مواد کے اثرات ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں رکھے جا سکتے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دفتر خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا: ’بین الاقوامی برادری کے لیے یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ کیلیفورنیم جیسا انتہائی نایاب سیل شدہ ریڈیو ایکٹیو سورس (ایس آر ایس) مواد چوری ہوسکتا ہے۔‘ 

بیان میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں ہونے والے واقعات میں تابکاری مواد رکھنے کے جرم میں گرفتار ہونے والوں نے یہ بھارت کے اندر سے حاصل کیا تھا۔ 

دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بار بار ہونے والے واقعات نہ صرف ایٹمی بلیک مارکیٹ کے ممکنہ وجود کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ درآمد شدہ ایس آر ایس مواد کو محفوظ بنانے کے لیے بھارت میں ڈھیلے انتظامات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ 

جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ جوہری یا تابکاری مواد کا یوں کسی غیر سرکاری شخص کے قبضے میں ہونا غیر محتاط رویے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں اتنی زیادہ نیوکلیئر تنصیبات ہوں اور وہ اس کا خیال نہ رکھ سکے تو یہ ساری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ 

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں جوہری مواد اور ہتھیاروں کے غیر محفوظ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ’ایسا صرف اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے۔ اسرائیل کے پاس سینکڑوں ایٹم بم ہیں لیکن اس پر کبھی تشویش یا شک کا اظہار نہیں کیا جاتا، کیونکہ وہ مسلمان ملک نہیں ہے اور اسی طرح بھارت بھی۔‘ 

جرل (ر) طلعت مسعود نے مزید کہا کہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو غیر محفوظ کہنے والوں سے اب بھارت میں ہونے والے ان واقعات سے متعلق پوچھا جانا چاہیے۔ 

انہوں نے کہا: ’بھارت ہی سے انہوں نے کیلیفورنیم حاصل کیا یا خریدا اور وہیں پر وہ لوگ موجود تھے، یہ باہر سے تھوڑی لے کر آئے تھے۔‘ 

واضح رہے کہ بھارتی میڈیا کے مطابق بھابھا انسٹیٹیوٹ میں نیتا جی سبھاش چندر ایئرپورٹ پر پکڑے جانے والے چمکیلے پتھروں کے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ وہ کیلیفورنیم کے بجائے عام دھات تھی، جنہیں فروخت کرنے کی غرض سے دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان