ادریس بختیار نہیں رہے

وہ گذشتہ دنوں کراچی یونین آف جرنلسٹ کی افطار پارٹی میں شرکت کے لیے پریس کلب آئے جہاں سے واپسی پر انہیں دل میں تکلیف ہوئی تو انھیں قومی ادارہ امراض قلب کراچی میں داخل کیا گیا تھا۔

معروف سینیر صحافی اور تجزیہ نگار ادریس بختیار کراچی میں بدھ کے شام مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔

وہ گذشتہ دنوں کراچی یونین آف جرنلسٹ کی افطار پارٹی میں شرکت کے لیے پریس کلب آئے تھے جہاں سے واپسی پر انہیں دل میں تکلیف ہوئی تو انھیں قومی ادارہ امراض قلب کراچی میں داخل کیا گیا تھا۔ جہاں بدھ کی شام آٹھ بجے انتقال کرگئے۔

کراچی پریس کلب کے عہدیداروں کے جانب سے جاری کے گئے ایک ایس ایم ایس میں ان کے انتقال کی خبر سے اپنے تمام ممبران کو مطلع کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی نماز جنازہ جمعرات کو نماز ظہر کے بعد وسیم باغ مسجد گلشن اقبال کراچی میں ادا کی جائے گی اور تدفین یاسین آباد قبرستان میں ہوگی۔

سندھ کے شہر حیدر آباد میں پیدا ہونے والے ادریس بختیار پانچ دہایوں تک صحافت سے وابستہ رہے۔ وہ جیو چینل کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ تھے اور حال ہی میں جنگ گروپ سے علحیدہ ہوئے تھے۔

ادریس بختیار کو کچھ عرصہ پہلے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازہ گیا۔

انہوں نے صحافت کا آغاز حیدر آباد کے روزنامے ڈیلی انڈس ٹائیمز شروع کیا بعد میں عرب نیوز، جسارت، ڈان گروپ کے اسٹار اور ہیرالڈ میگزین سے منسلک رہے۔ وہ بھارتی اخبار ٹیلیگراف اور بی بی سی اردو سروس کے ساتھ بھی طویل عرصے تک کام کرتے رہے تھے۔

انگریزی روزنامہ ڈان کے مدیر ظفر عباس نے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ انہوں نے ادریس بختیار کے ساتھ دو دہائیوں تک مل کر صحافت کی۔ ’وہ دوست، رفیق اور مینٹور تھے۔‘

 

سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل سانگی نے ادریس بختیار کے انتقال پر اپنے تاثرات میں کہا: 'ان سے میرے تین رشتے تھے۔ ایک تو صحافی ہونے کا رشتہ، دوسرا ہم دونوں نے صحافت حیدر آباد سے شروع کی اور میں راجستھانی ہوں اور وہ بھی۔ ادریس بختیار زبردست صحافی تھے اور اس جب فیک نیوز کے دور میں ان کے انتقال سے ہم ایک سچے صحافی سے محروم ہوگئے۔

کراچی پریس کے صدر امتیاز خان فاران نے کہا کہ ان کے انتقال سے ہم اپنے حقیقی سرپرست سے محروم ہوگئے ہیں۔ حسین نقی نے اپنے تعذیتی پیغام میں کہا کہ ان کی ادریس بختیار کے ساتھ نظریاتی سوچ کا فرق ہوتا تھا لیکن دونوں معیاری صحافت کا ہاتھ دامن سے نہیں چھوڑتے تھے۔

صحافی اور اینکرپرسن عنمبر شمسی نے ایک ٹیویٹ میں ان کے بارے میں کہا کہ ایسے لوگ اب بننا بند ہوگئے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان