ٹی ایل پی: پابندی لگنے اور آپریشن کے باوجود سٹریٹ پاور برقرار؟

پاکستان میں مختلف ادوار میں مذہبی موقف کے ساتھ سیاست کرنے والی بیشتر جماعتوں پر سخت گیر موقف کے باعث پابندیاں عائد ہوچکی ہیں جس کے بعد بھی وہ جماعتیں اسی طرح فعال رہیں۔

یکم نومبر 2018 کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد پل پر تحریک لبیک کے مظاہرے میں شامل مظاہرین نعرے لگاتے ہوئے(اے ایف پی فائل)

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کارکنوں کا دھرنہ لاہور کے ملتان روڈ پر جاری ہے۔ دھرنہ دینے والے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی کو رہا کرے۔

دوسری جانب حکومت پنجاب کے مطابق ٹی ایل پی کو مذہبی موقف اپنانے کی وجہ سے حکمت عملی کےتحت پر امن رکھنے کی کوشش کی گئی تھی اور آئندہ بھی انہیں مذاکرات کے ذریعے ہی منتشر کرنے کی کوشش جاری ہے۔

ٹی ایل پی پابندیوں کے باوجود منظم کیسے ہے؟

پاکستان میں مختلف ادوار میں مذہبی موقف کے ساتھ سیاست کرنے والی بیشتر جماعتوں پر سخت گیر موقف کے باعث پابندیاں عائد ہوچکی ہیں جس کے بعد بھی وہ جماعتیں اسی طرح فعال رہیں۔

ان جماعتوں میں سنی تحریک، سپاہ صحابہ پاکستان، جماعت الدعوۃ شامل ہیں لیکن اب ان جماعتوں کا زیادہ اثر نہیں رہا۔

تاہم ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیے جانے کے باوجود سعد رضوی کی رہائی کے لیے ملتان روڑ پر بڑی تعداد میں کارکنان دوبارہ نکل آئے ہیں۔

ترجمان ٹی ایل پی صدام حسین بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے گذشتہ چھ ماہ سے جماعت کو کالعدم قرار دے رکھا ہے جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہے کسی جماعت کو احتجاج کاجمہوری حق استعمال کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پہلے پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی کو غیر قانونی طور پرحراست میں لیا گیا۔ پھرہمارے رہنماؤں اور کارکنان کو غیر قانونی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ 80 سال کے کارکن جو چل بھی نہیں سکتے تھے ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر بھی سعد رضوی کو رہا نہیں کیا جا رہا جبکہ ہم مسلسل پر امن اور قانونی مدد سے ان کی رہائی کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے۔‘

صدام حسین بخاری کے بقول: ’کارکنان نے ان غیر قانونی کارروائیوں کے باعث تنگ آکر ملتان روڑ پر پرامن دھرنا دیا ہے۔ ہمیں شہریوں کی مشکلات کا احساس ہے لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کارکنان جبر برداشت کر کے بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک بھر کے مختلف شہروں میں سینکڑوں سرگرم کارکنوں کو پولیس نے مقدمات میں الجھا رکھا ہے۔ گرفتاریاں الگ کر رکھی ہیں۔ مگر ہماری قیادت ابھی بھی پر امن طور پر قانونی طریقے سے رہائی چاہتی ہے حالانکہ حکومت نے خود جو تحریری معاہدے کیے ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پارٹی قیادت مشاورت کر رہی ہے آئندہ کا لائحہ عمل بھی قانونی اور پر امن اختیار کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انتخابات میں ٹی ایل پی کو ملنے والے ووٹ اور ملک بھر میں کارکنوں کے متحرک ہونے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور اپنی قیادت کی رہائی کے لیے موقف حق پر ہے۔‘

صدام نے کہا کہ ’ہماری قیادت وزیر اعظم سے ایک پھر مطالبہ کر رہی ہے کہ معاہدوں پر عمل کر کے قیادت کو رہاکیا جائے، ورنہ کارکنوں کوآئندہ کا لائحہ عمل دیاجائے گا۔‘

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا ہے کہ ’مذہبی جماعتیں ووٹ نہیں لے سکتیں۔ لیکن مذہبی جذبات ابھار کر پر تشدد احتجاج اور سڑکیں بند کرکے افراتفری پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی جذبات کی آڑ لے کر حکومت اور انتظامیہ کو بلیک کرنے سے روکنے کا کوئی جامعہ حل موجود نہیں ہے۔‘

ان کے خیال میں لوگوں کو خود ہی سوچ سمجھ کر ٹی ایل پی جیسی جماعتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

حکومتی حکمت عملی کتنی موثر ہے؟

پنجاب میں قائمہ کمیٹی برائے قانون کی چیئر پرسن زینب عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے ٹی ایل پی کو انتشار پھیلانے سے روکنے کے لیے کالعدم تو قرار دے دیا۔ لیکن انہیں مکمل طور پر کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے۔‘

ان کے بقول: ’تحریک لبیک کی قیادت کو قانون کے مطابق بند کیا گیا ہے انہوں نے پورا ملک جام کر دیا تھا اور اب پھر سڑکیں بلاک کر کے شہریوں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ وزیر اعلی پنجاب نے مشاورت کی ہے۔ حکومت کی پہلی ترجیح ٹی ایل پی کو بات چیت کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر وہ اپنے سخت گیر موقف پر قائم رہتے ہیں اورامن وامان کی صورتحال خراب یا قانون کو ہاتھ میں لیں گے تو انتظامیہ سخت کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔‘

زینب کے بقول: ’ٹی ایل پی قیادت کے خلاف معاملہ عدالتوں میں ہے تو بہتر ہوگا انہیں لوگوں کو پریشان کرنے کی بجائے حالات کی نزاکت کو سمجھنا ہوگا۔ حکومت نے پہلے بھی پابندیاں عائد کرکے انتشار پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی تھی اور آئندہ بھی کرے گی۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں حکومت بھی مسلمانوں کی ہے اور سکیورٹی اداروں میں بھی مسلمان بھرتی ہیں تو ٹی ایل پی ایسا ردعمل ظاہر نہ کرے کہ صرف انہیں کے پاس مذہب کی ذمہ داری ہے۔‘

امجد شعیب نے کہا کہ ’پاکستان میں تین نعرے ایسے ہیں جنہیں مذہبی جماعتیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایک نظام مصطفی، دوسرا ناموس رسالت اور تیسرانفاذ شریعت ہے۔ ان نعروں پر پہلے بھی حکومتوں کے خلاف تحریکیں چلائی گئی ہیں اور اب ٹی ایل پی بھی وہی کام کر رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امجد شعیب کے بقول یہ نعرے ایسے ہیں جن سے باآسانی لوگوں کو مذہب کے نام پر جذباتی وابستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ساتھ ملایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب نظام مصطفی تحریک چلی تو انتشار پھیلانے والوں کے خلاف فوجی جوانوں نے بھی گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ مذہبی نعروں سے تو کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا ان کو استعمال کرنے والوں کے پس پردہ عزائم کیا ہوسکتے ہیں۔‘

امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا اس لیے کیا جاتاہے کہ لوگ سیاست کے نام پر باہر نہیں نکلتے۔ جیسے اپوزیشن جماعتیں مہنگائی کا شور مچا رہی ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ جب کہ مذہب کا نعرہ لگا دیا جائے تو لوگ جذباتی ہوکر سڑکوں پر نکلنا تو ایک طرف مرنے مارنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔‘

ادھر ترجمان ٹی ایل پی کے مطابق غیر ملکی ایجنڈوں پر عمل کرنے والی اقتدار کی خواہش مند سیاسی جماعتیں مذہبی جذبات کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا مطالبہ اور احتجاج آئینی ہے۔ حکمران جماعت نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ملک میں خود پر تشدد مظاہرے کیے تھے اور سڑکیں بھی بلاک کی تھیں۔ وہ سب حصول اقتدار کے لیے تھا۔ لیکن ہم اپنے پیغمبر کی ناموس کے لیے علم بلند کر رہے ہیں تو ہمیں کالعدم قرار دیا جارہا ہے۔ یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان