سعودی عرب، بحرین، کویت کے بعد اماراتی سفیر لبنان سے واپس

عرب لیگ نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بیان دیا کہ لبنانی حکام کو ملک کے وزیر اطلاعات کے تبصروں سے پیدا ہونے والے بحران سے مختلف طریقے سے نمٹنا چاہیے تھا جس نے خلیجی خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔

سال 2017 کی اس تصویر میں لبنانی صدر مائیکل عون اور سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر کی ملاقات (اے ایف پی فائل)

سعودی عرب، بحرین، کویت کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی لبنان سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔

جب کہ بحرین کی وزارت خارجہ نے لبنان سے سعودی سفیر طلب کر لیے جانے کے چند گھنٹے بعد ریاست سے لبنانی سفیر کو دو دن کے بے دخلی کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد کویت حکومت نے بھی آج (ہفتے کو) لبنانی سفیر کو بے دخلی کا حکم دیا۔

علاوہ ازیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات نے بھی لبنان سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔

لبنان کے وزیر اطلاعات کے سعودی عرب مخالف بیان کے بعد سعودی عرب نے کل لبنان سے اپنا سفیر مشاورت کے لیے طلب کیا ہے۔ جب کہ ریاض میں متعین لبنانی سفیر کو آئندہ 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کر دی گئی تھی۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق سعودی عرب نے لبنان سے تمام درآمدات پر مکمل پابندی بھی عائد کر دی ہے۔

علاوہ ازیں سعودی عرب نے جمعے کو ایک تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ’ لبنان کے وزیر اطلاعات کے سعودی عرب مخالف بیان کا لبنانی حکومت کی طرف سے کوئی نوٹس نہ لیے جانے پر یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘

سعودی وزارت خارجہ اپنے بیان میں کہا کہ ’لبنانی وزیر اطلاعات کی جانب سے مملکت مخالف بیان پر27 اکتوبرکو ردعمل دیا گیا تھا۔ لبنانی وزیر کا بیان سعودی عرب اور اس کی پالیسیوں کے حوالے سے لبنانی عہدیداروں کی جانب سے وقتا فوقتا جاری ہونے والے اشتعال انگیز بیانات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لبنانی وزیر کا نیا بیان افتراع پردازی، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی گھناؤنی کوشش ہے۔‘

یہ اقدام منگل کو لبنان کے وزیر اطلاعات جارج کورداہی کے یمن میں سعودی قیادت میں فوجی مداخلت کے بارے میں کیے گئے تبصروں کے جواب میں تھا۔ سعودی نشریاتی ادارے ایم بی سی کے سابق نیوز کاسٹر کورداہی نے کہا کہ یمن کی حوثی ملیشیا جارحیت کے خلاف صرف اپنا دفاع کر رہی ہے۔ انہوں نے جارحانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران سے منسلک حوثی اپنا دفاع کر رہے ہیں اور یمن میں جنگ کو ’بے سود‘ قرار دیا۔ 

دوسری جانب لبنان کے سابق وزیر اعظم سعد حریری نے جمعہ کے روز کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ دراڑ کی ذمہ دار ہے۔ حریری نے ایک ٹویٹ میں کہا ’اس سلسلے میں سب سے پہلے اور سب سے اہم ذمہ داری حزب اللہ پر عائد ہوتی ہے۔‘

انہوں نے یہ بیان سعودی عرب کی جانب سے لبنان سے اپنے سفیر کو ’مشاورت کے لیے‘ واپس بلانے کے بعد جاری کیا اور ریاض میں لبنانی سفیر کو جمعے کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ سعودی عرب نے لبنانی مصنوعات پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

عرب لیگ نے ہفتے کے روز جاری شدہ بیان میں کہا کہ لبنانی حکام کو ملک کے وزیر اطلاعات کے تبصروں سے پیدا ہونے والے بحران سے مختلف طریقے سے نمٹنا چاہیے تھا جس نے خلیجی خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روئٹرز کے مطابق عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے لبنان اور خلیجی تعلقات میں تیزی سے بگاڑ پر اپنی گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی جماعتیں ہیں جو عرب ممالک کے ساتھ لبنان کے تعلقات کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ لبنانی صدر میشل عون اور وزیر اعظم نجیب میقاتی بحران کو کم کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں گے۔

ابو الغیط نے خلیجی ممالک سے اپیل کی ہے کہ ’لبنانی معیشت پر مزید منفی اثرات سے بچنے کے لیے تجویز کردہ اقدامات پر غور کریں۔‘

جمعے کو اپنے تفصیلی بیان میں سعودی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’لبنان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ منشیات کی سمگلنگ روکے تاہم لبنان نے اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ لبنان نے منشیات کی سمگلنگ روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لبنان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ منشیات کی سمگلگ میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرکے انہیں مقررہ سزائیں دلائے۔ لبنان نے اس حوالے سے بھی کچھ نہیں کیا۔ بیروت نے مجرموں کی حوالگی کے معاہدے پرعمل درآمد کے سلسلے میں بھی کوئی تعاون نہیں کیا جو کہ دونوں ممالک کے درمیان کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔‘

وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ’صورتحال کا تقاضا تھا کہ لبنانی حکام کی جانب سے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جائیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حزب اللہ حوثی دہشت گردوں کو ٹریننگ اور دیگر قسم کی مدد بھی کر رہی ہے۔‘ سعودی عرب نے ملکی سلامتی اور عوام کے مفادات کی خاطر لبنان سے مملکت کے  لیے تمام درآمدات بند کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا