کشمیر کی آئرن لیڈی کا وعدہ

کشمیر میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کرنے والی پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں انصاف کی جنگ جاری رکھیں گی۔

کشمیر میں لاپتہ افراد کے معاملے میں اقوام متحدہ کی مداخلت انتہائی ناگزیر ہو چکی: پروینہ آہنگر (اے ایف پی)

آئرن لیڈی آف کشمیر کہلائی جانے والی پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں چین سے نہیں بیٹھیں گی اور انصاف کی جنگ جاری رکھیں گی۔

بھارت کے زیر انتظام ریاست جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر سے تعلق رکھنے والی پروینہ نے 1994میں ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس ایپئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) بنائی تاکہ وادیِ کشمیر میں 1990 میں شروع ہونے والی مسلح شورش کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ افراد باالخصوص نوجوانوں کو ڈھونڈا جا سکے۔

پروینہ کہتی ہیں کہ خود متاثرہ خاتون ہونے کی حیثیت سے انہوں نے دیگر تمام متاثرین کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ بنایا ہے اور انہیں امید ہے کہ کبھی نہ کبھی ان کے بیٹے یا نیم بیواؤں کے شوہر واپس آئیں گے جن کو فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔

اے پی ڈی پی کی بانی اور چیئرپرسن کے مطابق، وادی کشمیر میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سے دس ہزار ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جبری گمشدگی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ وہ کہاں ہیں؟

پروینہ کے مطابق مقامی عدالتیں انہیں انصاف نہیں دلا پائیں اور اس معاملے میں اقوام متحدہ کی مداخلت انتہائی ناگزیر ہو چکی ہے۔

50 سالہ پروینہ کا مقامی بھارت نواز رہنماؤں کے بارے میں کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ، مفتی محمد سعید، غلام نبی آزاد اور محبوبہ مفتی نے یکے بعد دیگرے اقتدار سنبھالا لیکن جہاں فاروق عبداللہ سے لے کر آزاد تک کسی نے بھی گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے کی کوششیں نہیں کیں وہیں محبوبہ مفتی نے پیلٹ بندوقوں کا بے تحاشا استعمال کروا کے چھ سو نوجوانوں سے ان کی بینائی چھین لی۔

پروینہ کا بیٹا کب اور کیسے لاپتہ ہوا؟

18 اگست 1990 کو رات کے تین بجے سویلین کپڑوں میں ملبوس نیشنل سکیورٹی گارڈ سے وابستہ اہلکار سری نگر کے دھوبی محلہ بتہ مالو پہنچے اور وہاں سے پروینہ کے 17 سالہ بیٹے جاوید احمد آہنگر کو اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ جاوید اُس وقت 11ویں جماعت میں پڑھ رہے تھے۔

پروینہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’میرے بیٹے کو این ایس جی والوں نے اٹھایا۔ ان کا انٹیروگیشن سینٹر پری محل میں تھا۔ جب میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے لگی تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کا بیٹا زخمی ہوا ہے اور اسے بادامی باغ فوجی چھاؤنی میں واقع ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ میں تین بار وہاں گئی لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔ ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں میں اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے نہیں پہنچی۔‘

'میں دلی کی تہاڑ جیل، میرٹھ جیل، جودھ پور جیل، ہیرا نگر کٹھوعہ جیل، جموں سینٹرل جیل، ادھم پور جیل گئی لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔ نہ وہ جنگجو تھا اور نہ کچھ اور۔ اُن لوگوں نے مل کر ہمارے بیٹوں کو اٹھایا اور پھر لاپتہ کیا۔ کیا قانون صرف عام کشمیریوں کے لیے ہے؟ کیا سکیورٹی ایجنسیوں کے لیے کوئی قانون نہیں؟‘

عدالتوں کے چکر

پروینہ نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے مختلف عدالتوں کے چکر کاٹے لیکن گمشدہ بیٹے کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملا۔

’مجھے اُس وقت کے ایس پی کنٹرول روم سری نگر بشیر احمد ڈار نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیا۔ میں نے 1991 میں عدالت میں حبسِ بےجا کی درخواست دائر کی (بھارت کے عدالتی نظام میں حبسِ بے جا کی درخواست کے تحت لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر عدالت میں پیش کرنا ممکن نہ ہو تو یہ بتانا لازمی ہوتا ہے کہ وہ شخص کہاں ہے)۔

پروینہ آہنگر کہتی ہیں: ’عدالت میں مقدمہ چلنے کے دوران میں سیشن جج کے ہمراہ جموں جیل گئی۔ وہاں کہا گیا کہ ہم نے آپ کے بیٹے کو رہا کر دیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں تھی۔1997 میں میرے بیٹے کی رہائی کی فائل منظوری کے لیے مرکزی وزارت داخلہ بھیجی گئی لیکن وہاں منظوری نہیں دی گئی۔‘

اے پی ڈی پی کی بانی کا کہنا ہے کہ وادیِ کشمیر میں عدالتیں بھی انہیں انصاف دلانے میں ناکام ہوئیں۔

’پھر میں نے چار سال تک چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سری نگر کی عدالت میں مقدمہ لڑا۔ تاریخ پر تاریخ۔۔۔ وہاں بالآخر جج صاحب نے کہا کہ میری اتنی طاقت نہیں کہ تمہیں تمہارا بیٹا واپس دلا سکوں۔ پھر رٹ پٹیشن لے کر ہائی کورٹ پہنچی لیکن وہاں بھی کوئی انصاف نہیں ملا۔‘

پروینہ ریاستی کمیشن برائے انسانی حقوق کے بارے میں کہتی ہیں: ’جہاں بھی ہم مدد کے لیے گئے وہاں دھکوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ عدالت میں بھی کوئی انصاف نہیں ملا۔ جج صاحبان کے پاس احکامات جاری کرنے کے اختیارات ہی نہیں۔ کوئی جج صاحب ریٹائر ہوتا ہے تو اسے ریاستی کمیشن برائے انسانی حقوق میں کسی عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔ جب ہائی کورٹ کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو کمیشن برائے انسانی حقوق سے کیا امیدیں باندھ سکتے ہیں؟‘

'ریاستی کمیشن برائے انسانی حقوق صرف مالی مدد کی سفارش کرتا ہے۔ وہ ایک لاکھ روپے کی مالی مدد کی سفارش کرتا ہے۔ ہمیں پیسوں کا کیا کرنا؟ پیسے ملیں گے مگر بیٹا کہاں ملے گا؟‘

مقامی رہنماؤں سے ناراضگی

پروینہ جموں وکشمیر میں نوے کی دہائی کے بعد بننے والے وزرائے اعلیٰ سے بےحد ناراض ہیں۔

کہتی ہیں: 'ادھر فاروق عبداللہ آئے انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ پھر عمر عبداللہ آئے انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ مفتی محمد سعید آئے انہوں نے بھی ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ پھر غلام نبی آزاد آئے انہوں نے بھی ہمیں انصاف نہیں دلایا۔ پھر محبوبہ مفتی آئیں انہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے چھ سو لوگوں کو اندھا کیا۔ ہم اپنے بیٹوں کو دیکھنے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ تیس سال گزر گئے مگر تڑپ نہیں گئی۔ ہمارے بچے کدھر اور کس حال میں ہیں؟'۔

اے پی ڈی پی چیئرپرسن کا کہنا ہے ان کی تنظیم گمشدہ افراد کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کرانا چاہتی تھی لیکن مقامی حکومتوں نے اسے بنانے نہیں دیا۔

'ہم نے 2001 میں شہید مزار عید گاہ کے سامنے ایک یادگار بنانا چاہا لیکن اس وقت کی فاروق عبداللہ حکومت نے بنانے نہیں دیا۔ پھر ہم نے دوسری جگہ زمین خریدی اور وہاں یادگار بنانا چاہا لیکن وہاں بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم چاہتے تھے کہ ہم ایک یادگار بنائیں جہاں ہم جبری طور پر لاپتہ ہر نوجوان یا شخص کا نام لکھیں گے'۔

اے پی ڈی پی کا قیام

پروینہ کہتی ہیں کہ بحیثیت ایک متاثرہ خاتون انہوں نے تمام متاثرین کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے اور ایک دوسرے کا درد بانٹنے کی کوششیں کیں۔

'سنہ 1994 میں، میں نے ایسوسی ایشن بنائی۔ اردو روزنامہ الصفا میں ہر روز ایک لاپتہ شخص اور ایک شہید کی خبر شائع ہوتی تھی۔ میں ان خبروں کے تراشے جمع کرکے گاؤں گاؤں جاتی تھی۔ اس طرح میں نے ان سب لوگوں کو اکٹھا کیا جن کے عزیز و اقارب لاپتہ کیے گئے تھے'۔

'ہم گھر میں مویسشی پالتے ہیں اور جب ان میں سے کوئی جانور مرتا ہے تو کتنا دکھ ہوتا ہے؟ لیکن یہ جو لاپتہ کیے گئے ہیں وہ انسان ہیں؟ ہمیں انہیں ڈھونڈنا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ جبری گمشدگی کے ان واقعات میں پولیس تھانوں میں کیس بھی درج نہیں ہوتے تھے'۔

'خود ایک متاثرہ خاتون ہونے کی حیثیت سے میں نے تمام متاثرین کے ساتھ ایک رشتہ بنایا۔ میں ایک ماں ہوں، کسی ماں کے ایک سے زیادہ بیٹے لاپتہ کیے گئے ہیں۔ ہمارے یہاں نیم بیوائیں بھی ہیں۔ ان کے چار، چار بچے ہیں۔ وہ ابھی بھی اپنے شوہر کا انتظار کررہی ہیں۔ ایسی خواتین نے دوسری شادیاں بھی نہیں کیں۔ ان کے بچے اپنے باپ کو تلاش کررہے ہیں'۔

پروینہ متاثرین کو درپیش مالی دشواریوں پر کہتی ہیں 'متاثرین کو بے حد پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ان کو کھانے پینے، دوائی اور بچوں کی اسکول فیس ادا کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ کون ان کی مدد کرے گا؟ سرکار کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی'۔

جبری طور گمشدہ افراد کی تعداد کے بارے میں پوچھے جانے پر پروینہ کا جواب تھا 'وادی میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سے دس ہزار ہوگی۔ میں نے اپنا ہر ایک رشتہ ختم کیا لیکن متاثرین کے ساتھ رشتہ مضبوط کیا ہے۔ کسی کے گھر میں شادی ہے، کسی کو بچے کی فیس ادا کرنی ہے، کسی کو ادویات خریدنی ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کی جائے'۔

جدوجہد جاری رکھنے کا عزم

پروینہ کے مطابق جبری گمشدگیاں ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ کوئی مرتا ہے تو کم از کم لاش ملتی ہے، لواحقین کو تسلی ہو جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے: 'میں جب تک زندہ ہوں لڑوں گی۔ یہ مصیبت اور کسی کے ساتھ نہیں۔ یہ کشمیر میں ایک گہری چوٹ ہے۔ اگر کوئی مرتا ہے تو کم از کم لاش ملتی ہے، ماں باپ کو تسلی ملتی ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ ان کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ نئی نسل کے ساتھ کم از کم یہ ظلم نہیں ہونا چاہیے'۔

پروینہ مزید کہتی ہیں 'ہمیں بہت تنگ کیا گیا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ انصاف کے لیے اپنی جنگ جاری رکھوں گی۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایک نہ ایک دن انصاف ملے گا۔ آخر ظلم کی ہار ہوگی۔ اللہ کی عدالت سے بڑی کوئی عدالت نہیں۔ ہمیں امید ہے کہ کبھی نہ کبھی ہمارے بچے واپس آئیں گے۔ سبھی مائیں اپنے بچوں اور سبھی نیم بیوائیں اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہیں۔ ہم جب تک زندہ ہیں تب تک لڑیں گے۔ ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

سالانہ احتجاج

اے پی ڈی پی کی طرف سے ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر سری نگر میں تاریخی لال چوک کے نزدیک پرتاب پارک میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا جاتا ہے۔

پروینہ کہتی ہیں 'ہم ہر سال 10 دسمبر کو پرتاب پارک میں احتجاج کرکے اقوام متحدہ سے فریاد کرتے ہیں کہ وہ حکومت ہندوستان سے کہے کہ کشمیر میں جن نوجوانوں اور دیگر افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے وہ کہاں ہیں'۔

'یہاں سنہ 2010 میں گمنام قبروں کا انکشاف ہوا۔ ہم نے مقامی حکومت سے کہا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کرکے دیکھو کہ گمنام قبروں میں کون لوگ مدفون ہیں۔ فورسز جنہوں نے ہمارے بچوں کو اٹھایا، ان سے پوچھو کہ وہ کہاں ہیں'۔

کیا اے پی ڈی پی کے قیام کا مقصد پورا ہوا؟

اگرچہ پروینہ سمیت ہزاروں متاثرین کو ہنوز اپنے پیاروں کا انتظار ہے تاہم تنظیم کے قیام سے ایک تو متاثرین ایک پلیٹ فارم پر آگئے دوم پوری دنیا وادی کشمیر میں ہونے والی جبری گمشدگیوں سے باخبر ہوئی۔

’آئرن لیڈی‘ پروینہ آہنگر کو اپنی جدوجہد کے لیے اب تک متعدد ایوارڈ بشمول رفٹو میموریل پرائز اور فرنٹ لائن ایوارڈ فار ہیومن رائٹس دیے جاچکے ہیں۔ 

انہیں سنہ 2005 میں 'نوبل امن انعام' کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ انہیں اگرچہ بھارتی میڈیا گروپ 'سی این این آئی بی این' نے بھی ایک اہم ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تھا تاہم انہوں نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکار کیا کہ بھارتی میڈیا کشمیریوں کے تئیں مخلص نہیں۔

پروینہ نے اے پی ڈی پی کے مقصد کو دنیا کے مختلف فورمز جنیوا، لندن، کمبوڈیا، چانگ مائی، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن میں بیان کیا اور دنیا کی کچھ اعلیٰ یونیورسٹیوں میں وادی کشمیر میں ہونے والی جبری گمشدگیوں پر لیکچر دیا۔

سنہ 2010 میں اقوام متحدہ نے اے پی ڈی پی کو سالانہ دس ہزار ڈالرز کی گرانٹ دینے کو منظوری دی۔ پروینہ نے اسی سال اعلان کیا کہ وہ یہ رقم متاثرین جن کے پیارے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں، کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے استعمال کریں گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین