‘سعودی عرب نے بیلسٹک میزائل پروگرام تیز کر دیا’

امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این کے مطابق سعودی عرب نے چین کی مدد سے اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام تیز تر کر دیا ہے۔

 سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے واضح کیا ہے کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنا لیا تو سعودی عرب بھی ایسا ہی کرے گا (اے ایف پی)

امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این نے خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے چین کے تعاون سے اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام تیز تر کر دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس پیش رفت سے مشرقِ وسطیٰ میں میزائلوں کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

سی این این کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے یہ خفیہ معلومات کانگریس کے اہم ارکان سے بھی چھپائے رکھیں، جس کی وجہ سے ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان سخت برہم ہیں کیوں کہ انہیں اس بات کا حکومت سے نہیں بلکہ دوسرے ذرائع سے پتہ چلا ہے۔

کانگریس سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کے ساتھ سو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کر رکھا ہے۔

امریکی چینل کی خبر کے مطابق خفیہ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے چین کے تعاون سے حال ہی میں میزائل انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی دونوں شعبوں میں توسیع کی ہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ایران بیلسٹک میزائل کے تجربات کر رہا ہے، تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔

سی این این نے مزید کہا ہے کہ بیلسٹک میزائلوں پر ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیار بھی نصب کیے جا سکتے ہیں اور اس پروگرام کی وجہ سے سعودی عرب کی ایران کے ساتھ اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

 یاد رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنا لیا تو سعودی عرب بھی ایسا ہی کرے گا۔

سعودی عرب امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، تاہم 1987 کے ایک قانون کے تحت وہ امریکہ اور میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول کے معاہدے میں شامل ملکوں سے بیلسٹک میزائل نہیں خرید سکتا۔ تاہم سعودی عرب نے چین سے بیلسٹک میزائل خریدے ہیں جو اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں میں شامل نہیں ہے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اب خود ایسے میزائل بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے جنوری میں سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے بتایا تھا کہ سعودی عرب نے بیلسٹک میزائل بنانے کی فیکٹری قائم کر لی ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق یہ فیکٹری سعودی عرب کے علاقے الوتہ میں قائم ہے۔

سی آئی اے، نیشنل انٹیلی جنس اور امریکہ میں سعودی سفارت خانے کے ترجمان نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

البتہ چینی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ چین اور سعودی عرب دفاعی شراکت دار ہیں اور دونوں اسلحے کی فروخت سمیت تمام شعبوں میں دوستانہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ٹوٹا اور نہ ہی اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والی ہتھیاروں کا پھیلاؤ ہوتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا