اسلام آباد:ڈھابہ چلانے والی خاتون جو خواتین کو بااختیار دیکھنا چاہتی ہیں

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی عامرہ لیاقت نے ماسٹرز کر رکھا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر کوئی پڑھی لکھی خاتون ڈھابہ چلا سکتی ہے تو گھر میں بیٹھی خواتین بھی یہ کر سکتی ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی عامرہ لیاقت اسلام آباد میں ڈھابہ لگا کر کئی خاندانوں کی کفالت کر رہی ہیں۔ وہ نہ صرف خودکفیل ہیں بلکہ خواتین کو بااختیار بنانے پر بھی یقین رکھتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عامرہ نے بتایا کہ انہوں نے مظفر آباد سے کراچی تک مختلف شہروں میں کئی ملازمتیں کی ہیں۔ ’میں گذشتہ آٹھ برس سے اسلام آباد میں مختلف نوکریاں کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے این جی اوز کے ساتھ بھی تقریباً نو دس سال کام کیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’میرا ہمیشہ سے خواب تھا کہ میں اپنا کوئی کام شروع کروں مگر ہمیشہ بس سوچ کر ہی رہ جاتی تھی اور عمل نہیں کر پاتی تھی۔ پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں اپنا ڈھابہ کھولوں۔‘

عامرہ نے ماسڑز کر رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا: ’میں نے یہ سوچھا کہ کوئی پڑھی لکھی خاتون اگر مارکیٹ میں آکر اس طرح کا ڈھابہ کھول کر چلا سکتی ہے تو ایک عام عورت جو گھر میں بیٹھی ہوئی ہے وہ بھی یہ کر سکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پیسہ تو کمانا ہے ہی، آپ یہ انکار نہیں کرسکتے کہ پیسہ نہیں کمانا ہے، لیکن پیسے کے ساتھ ساتھ میرا ان خواتین کے لیے پیغام ہے جو کسی کی مدد کی منتظر ہیں کہ ان کو چاہیے کہ اپنا ایک ڈھابہ لگا لیں، چاہے چھوٹا سا ہی ڈھابہ کھول لیں۔ فرائز کا ہی کھول لیں تو وہ اپنی آمدن بڑھا سکتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عامرہ لیاقت کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد ویمن امپاورمنٹ ہے۔ مظفرآباد کے جس نواحی گاؤں سے ان کا تعلق ہے، وہاں کی خواتین صرف ٹیچنگ کرسکتی ہیں، اس لیے جب عامرہ نے این جی او میں نوکری شروع کی تو انہیں بہت مشکلات کا سامنا ہوا۔

انہوں نے بتایا: ’میرے گھر والوں نے تو میری حمایت کی لیکن باہر کے لوگوں نے کہا کہ یہ ملازمت لڑکیوں کے لیے نہیں ہے، لیکن سب کی باتیں سننے کے باوجود میں نے کہا کہ مجھے کام کرنا ہے۔ میں نے اپنا ایک ہدف رکھا کہ میں نے کام کرنا ہے۔‘

بقول عامرہ: ’جتنے بھی لوگ باتیں کرتے تھے اب سب میرے ساتھ ہیں۔ اب میں یہاں بیٹھے ہوئے اپنے گاؤں میں لوگوں کی مدد بھی کرتی ہوں۔ مختلف تنظیموں کے ساتھ بھی میرا تعلق ہے جہاں سے عطیات بھی ملتے ہیں۔ میں نے بہت سے لوگوں کے مہینے کے راشن بھی لگوائے ہوئے ہیں۔‘

عامرہ کے مطابق: ’میں 12 بجے یہاں آجاتی ہوں۔ تیاری کرواتی ہوں۔ میں یہاں ایک مالک کی طرح آکر بیٹھ نہیں جاتی بلکہ میں خود بھی کٹنگ وغیرہ کرتی ہوں۔ میں خود چائے بناتی ہوں اور میں خود ہی ویٹر کا کام کر رہی ہوتی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ میرا کام ہے اور مجھے یہ سب کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین