مبینہ طور پر سرحد عبور کرنے والا گونگا بہرا بچہ پاکستان واپس

دس برس پہلے  پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے مبینہ طور پر بارڈر پار کرنے والے بچہ وسیم تنویر جو بول اور سن نہیں سکتا، بھارت سے پاکستان کو واپس۔

ایدھی فاؤنڈیشن نے چار ماہ پہلے بھارت میں وسیم سے ویڈیو کال کی (تصاویر: ایدھی فاؤنڈیشن)

ایدھی فاؤنڈیشن کے چئیرمین  فیصل ایدھی کے مطابق چھ ماہ کی کوششوں کے بعد وہ دس برس پہلے  پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے غلطی سے بارڈر پار کرنے والے بچے وسیم تنویر جو بول اور سن نہیں سکتا، کو بھارت سے پاکستان لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

وسیم تنویر کے والد تنویر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وسیم دو روز قبل واہگہ کے راستے پاکستان داخل ہوا تھا۔ ہماری ملاقات ہوگئی ہے۔  مگر ابھی وہ بارڈر سکیورٹی کے پاس ہے جنہوں نے بتایا ہے کہ اس کے کچھ ٹیسٹ وغیرہ کرنے ہیں اور تصدیق بھی اس لیے وہ وسیم کو دس روز کے بعد ہمارے ساتھ بھیجیں گے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق تحصیل سماہنی ضلع بھمبر آزاد کشمیر سے ہے ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔

’ وسیم سب سے بڑا ہے جب یہ بارڈر کراس کر کے گیا اس وقت اس کی عمر نو دس برس تھی۔‘  انہوں نے بتایا کہ ایدھی فاؤنڈیشن نے چار ماہ پہلے بھارت میں وسیم سے ویڈیو کال کروائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اسے پہچان لیا ہے اور اس نے بھی ہمیں پہچان لیا۔ اس کے بغیر ہمارے دن بہت خراب گزرے خاص طور پر اس کی ماں کا اس کے بغیر تمام وقت رو دھو کر گزرا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں بارڈر سکیورٹی کی جانب سے واپس بھیج دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دس روز بعد وہ دوبارہ رابطہ کریں گے اور پھر وہ وسیم کو لینے آ سکتے ہیں۔ 

بھارت میں موجود پاکستان ہائی کمیشن کی جانب سے ٹوئٹر بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان ہائی کمیشن اور ایدھی فاؤنڈیشن کی ٹھوس کوششوں سے، اور فریقین کی ہم آہنگی کے ساتھ، گویائی اور سماعت سے محروم پاکستانی شہری وسیم تنویر کو 18 دسمبر 2021 کو اٹاری-واہگہ بارڈر کے ذریعے وطن واپس لایا گیا۔‘

وسیم تنویر کب اور کیسے بھارت پہنچا اور ایدھی فاؤنڈیشن کا اس کے واپس وطن آنے میں کیا کردار ہے اس حوالے سے چئیرمین ایدھی فاؤنڈیشن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس برس جولائی کے وسط میں بھارت سے مجھے اس این جی او نے رابطہ کیا جن کی میں نے پانچ چھ برس پہلے مدد کی تھی۔  گیتا نامی بھارتی بچی جو پاکستان میں آگئی تھی اسے واپس  بھارت پہنچانے میں،  انہوں نے مجھے ایک ای میل کی کہ بھارت پنجاب کی ایک سرکاری افسر ہیں سمن جی نے انہیں بتایا کہ ان کے پاس ایک بچہ ہے جو کہتا ہے کہ وہ پاکستان سے ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بچہ تقریباً سات آٹھ سال سے وہاں ہے۔‘

فیصل ایدھی نے بتایا کہ انہوں نے اس این جی او سے سمن جی اور اس بچے سے بات کروانے کا مطالبہ کیا جس کے بعد فیصل ایدھی کی ان سے واٹس ایپ پر ویڈیو کال پر بات ہوئی۔ ’بچہ بول اور سن نہیں سکتا تھا لیکن اس نے اشاروں میں سمجھایا کہ وہ پیدل جارہا تھا اور پھر اس نے بس میں سفر کیا اور پھر اس نے بارڈر کراس کیا جہاں اسے بھارتی فوجیوں نے پکڑ لیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ بچہ پاکستانی روپے کو پہچانتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے نے یہ بھی بتایا کہ جہاں وہ رہتا تھا وہاں اونچے اور برفیلے پہاڑ ہیں اور وہاں اخروٹ اگتے ہیں۔ جس کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن نے پہاڑی علاقوں، خاص طور پر وہ جہاں اخروٹ اگتے ہیں، کے لوکل اخبارات میں اس بچے کی تب کی تصاویر تلاش لواحقین کے اشتہار کے ساتھ شائع کیں۔  

’جس کے بعد آزاد کشمیر کے علاقے سے بچے کے والدین نے ہم سے رابطہ کیا۔ اور ایک ہی خاندان نے رابطہ کیا۔ اس کے بعد ہم نے بچے کی ان سے ویڈیو کال پر بات کروائی لیکن اس کال کے دوران یہ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکے کیونکہ بچہ جب سرحد پار کی تب وہ چھوٹا تھا مگر اب وہ جوان ہو چکا تھا۔ لیکن وسیم کی والدہ نے اس کے جسم پر موجود دو تین نشان بتائے جنہیں جب چیک کیا گیا تو وہ وہاں موجود تھے جن میں اس کے ناک پر تل بھی شامل ہے اور ران پر جلنے کا نشان بھی۔ لیکن یقیناٍ وہ نشان بھی وقت کے ساتھ تھوڑے تبدیل ہو چکے تھے۔ ہمیں تھوڑی پریشانی ہوئی لیکن ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ وہی بچہ ہے۔‘

فیصل ایدھی نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اور ان کی مدد سے وہ وسیم کو پاکستان لانے میں کامیاب ہو گئے۔

فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ بچے کو ابھی واہگہ بارڈر پر روکا گیا ہے کیونکہ انہیں اپنے قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ جو دو نشانیاں اس کی والدہ نے بتائیں اور وہ اس کے جسم پر موجود بھی ہیں انہیں نشانیوں سے بچے کی شناخت ہو جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان