بھارتی سرحدی فورس کے اختیارات میں اضافے پر تنازع کیوں؟

وفاقی حکومت کے ’یک طرفہ فیصلے‘ کی مخالفت کی وجہ سے پنجاب اور مغربی بنگال کی حکومتیں اور اپوزیشن رہنما ہندو قوم پرست جماعتوں کے لفظی حملوں کی زد میں ہیں۔

28 فروری، 2021 کی اس تصویر میں بھارتی فوج کے اہلکاروں کو لداخ، سری نگر اور چینی سرحد کے سنگم پر موجود برف پوش پہاڑ پر دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی فائل)

بھارت میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھوٹان سے لگنے والی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے دائرہ اختیار میں توسیع کرنے کے ایک حالیہ فیصلے سے ریاستوں اور وفاق کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

دراصل بھارتی وزارت امور داخلہ نے گذشتہ ہفتے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے تحت بی ایس ایف کو پنجاب، مغربی بنگال اور آسام میں سرحد سے 50 کلو میٹر اندر تک کارروائی انجام دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔

قبل ازیں بی ایس ایف کو ان ریاستوں کی سرحدوں سے 15 کلو میٹر اندر تک ہی پولیس کو مطلع کیے بغیر تلاشی آپریشن انجام دینے، کوئی گرفتاری اور ضبطی عمل میں لانے کا اختیار حاصل تھا۔

گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق گجرات میں بی ایس ایف کا دائرہ اختیار 80 کلو میٹر سے کم کر کے 50 کلو میٹر کر دیا گیا ہے جبکہ راجستھان جہاں اس سرحدی فورس کا دائرہ کار 50 کلو میٹر مقرر تھا، میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔

پنجاب اور مغربی بنگال کی حکومتیں بھارتی وزارت داخلہ کے سرحدی فورس کے دائرہ اختیار میں توسیع کے فیصلے کے خلاف برسر احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ’یک طرفہ اقدام’ وفاقی ڈھانچے پر حملہ اور ریاستی پولیس کے اختیارات سلب کرنے کی کارروائی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی ایس ایف کو بھارت کی شورش زدہ ریاستوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں جیسے منی پور، میزورم، تریپورہ، ناگالینڈ، میگھالیہ، جموں و کشمیر اور لداخ میں کہیں بھی کوئی کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

پنجاب اور مغربی بنگال کو اعتراض کیوں؟

پنجاب اور مغربی بنگال میں اس وقت بالترتیب کانگریس اور ترنمول کانگریس کی حکومت ہے۔ دونوں ریاستوں نے وفاق میں برسر اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بی ایس ایف کو اضافی اختیارات دینے کے فیصلے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ انہیں اب بھارت کی دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔

تاہم آسام، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے بی ایس ایف کو اضافی اختیارات دینے کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ اس اقدام سے قومی سلامتی اور قومی مفادات کو مضبوطی ملے گی۔

پنجاب کے نومنتخب وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی نے بھارتی وزیر داخلہ کے فیصلے کو ’غیر منطقی فیصلہ’ قرار دیتے ہوئے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا ایک بیان میں کہنا تھا: ’میں بھارتی حکومت کے بی ایس ایف کو اضافی اختیارات دینے کے یک طرفہ فیصلے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ یہ فیڈرالزم پر براہ راست حملہ ہے۔ میں وزیر داخلہ امت شاہ پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس غیر منطقی فیصلے کو واپس لے لیں۔‘

پنجاب کے نائب وزیر اعلیٰ سکھجندر سنگھ رندھاوا، جن کے پاس ریاستی وزارت داخلہ کا قلمدان ہیں، نے بھی بھارتی حکومت کے فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’50 کلو میٹر کا مطلب پورا گرداسپور ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ بھارتی حکومت نے ایسا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ یہ لوگوں کے جمہوری حقوق میں مداخلت ہے۔ میری وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے مانگ ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کریں۔ میں ان سے جلد ملاقات بھی کروں گا۔‘

’گجرات اور راجستھان میں بین الاقوامی سرحد کے نزدیک کوئی آبادی نہیں ہے۔ لیکن پنجاب میں سرحد پر بھی لوگوں کے مکانات ہیں۔ میرے علاقے میں لوگ سرحد سے محض آدھے کلو میٹر کی دوری پر رہتے ہیں۔

بی ایس ایف کا کام سرحدیں سیل کرنا ہے۔ اس کو اپنی توجہ ڈرونز کی نقل و حرکت اور منشیات کی سمگلنگ روکنے پر مرکز کرنی چاہیے۔‘

عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے قومی سلامتی کے نام پر آدھے سے زیادہ پنجاب پر وفاق کی حکمرانی نافذ کر دی ہے۔

اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی کے ترجمان راگھو چڈھا نے ایک نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا: ’نریندر مودی کی حکومت نے بی ایس ایف کے دائرہ اختیار میں توسیع کر کے آدھے سے زیادہ پنجاب میں صدارتی راج نافذ کر دیا ہے۔ اس بڑے حصے پر اب بی جے پی اور نریندر مودی کی حکمرانی ہو گی۔‘

’اس اقدام کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ بی جے پی جان گئی تھی کہ وہ پنجاب میں مستقبل قریب میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل نہیں کر پائے گی۔ ہم اس اقدام کی مخالف کرتے رہیں گے۔‘

پنجاب کی سیاسی جماعت شیرومنی اکالی دل کے رہنماوں نے بی ایس ایف کے اختیارات میں اضافے کے خلاف اجتماعی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

مغربی بنگال میں ممتا بینرجی کی حکومت نے بھی نریندر مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف اپنا سخت احتجاج درج کرایا ہے۔

ترنمول کانگریس کے ترجمان کنال گھوش کہتے ہیں: ’بی ایس ایف کے اختیارات میں توسیع کا فیصلہ قابل مذمت ہے۔ یہ ریاست کی زمینی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ ہماری جماعت معاملے کو لے کر سنجیدہ ہے۔‘

ترنمول کانگریس کے سینیئر رہنما اور بھارتی پارلیمان کے رکن سوگت رائے کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا فیصلہ ریاست کی خودمختاری پر حملہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’بی ایس ایف کو سمگلروں سے ساز باز رکھنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس کے دائرہ اختیار میں توسیع کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ ریاست کو اس اقدام کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے۔‘

دریں اثنا کانگریس کی اعلیٰ ترین پالیسی ساز کمیٹی ’کانگریس ورکنگ کمیٹی‘ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مودی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔

ہفتے کو نئی دہلی میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کی صدارت میں منعقد ہونے والے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا ہے: ’یہ ریاستوں اور ریاستی پولیس کے خصوصی اختیارات سلب کرنے کی کارروائی ہے۔ کانگریس پارٹی تمام متعلقین، دیگر سیاسی جماعتوں اور ریاستی حکومتوں سے مشاورت کے بعد مودی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرے گی۔‘

کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے بھی مودی حکومت سے اپنا فیصلہ واپس لینے کی مانگ کی ہے۔

’قومی سلامتی’ کے نام کا استعمال

وفاقی حکومت کے ’یک طرفہ فیصلے‘ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے پنجاب اور مغربی بنگال کی حکومتیں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنما دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کے لفظی حملوں کی زد میں ہیں۔

ہندو قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ کانگریس اور دیگر ہم خیال جماعتیں ’ملکی سلامتی اور ملکی مفادات‘ جیسے فیصلوں پر اعتراضات اٹھا کر ملک دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔

بھارت کے مختلف شہروں سے شائع ہونے والے اردو اخبار ’راشٹریہ سہارا‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے: ’مسئلہ ملک کی سکیورٹی سے جڑا ہوا ہے جو حساس ہے۔ اس لیے زیادہ ہنگامہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ارادتاً یا غیر ارادتاً کچھ اس طرح سے قدم اٹھایا گیا یا پیش کیا جا رہا ہے، جیسے بات کچھ اور ہے۔‘

لیکن اخبار نے یہ نہیں لکھا ہے کہ سنہ 2012 میں نریندر مودی نے بھی گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بی ایس ایف کا دائرہ اختیار بڑھانے کے وفاقی حکومت کے فیصلے کی سخت مذمت کی تھی۔

تب انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے آخر الذکر پر ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے اور ’ریاست کے اندر ایک اور ریاست بنانے‘ کا الزام لگایا تھا۔

جواز جو پیش کیے جا رہے ہیں

بھارتی اخبار ’دا انڈین ایکسپریس‘ نے وفاقی وزارت امور داخلہ کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ بی ایس ایف کے دائرہ اختیار میں توسیع کا فیصلہ جموں و کشمیر اور پنجاب میں ڈرونز کے استعمال سے ہتھیار اور منشیات سرحد کے اس پار بھیجنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

تاہم اخبار لکھتا ہے کہ جموں و کشمیر اور پنجاب میں پاکستان سے لگنے والی سرحد کے نزدیک آج تک جتنے بھی ڈرونز دیکھے گئے ہیں ان میں سے کسی کی بھی رینج 20 کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔

بی ایس ایف کی جانب سے جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلے سے سرحد پار سے ہونے والے جرائم کو روکنے میں مدد ملے گی نیز مختلف سرحدی ریاستوں میں آپریشنز چلانے میں یکسانیت آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1965 میں بھارت – پاکستان جنگ کے بعد معرض وجود میں لائی جانے والی بی ایس ایف کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے ہونے والے جرائم میں ڈرون کی نقل و حرکت، دراندازی، منشیات، اسلحہ اور مویشیوں کی سمگلنگ اور جعلی کرنسی ریکٹز شامل ہیں۔

بی ایس ایف کے آئی جی آپریشنز ایس وائی کمار منز کہتے ہیں کہ وفاقی ڈھانچے پر حملے کے الزامات غلط ہیں۔

’یہ غلط ہے کہ مقامی پولیس بی ایس ایف کے آپریشنل علاقے میں کارروائی نہیں کر سکتی ہے۔ مقامی پولیس کی اہمیت برقرار رہے گی۔ ہم نے ہر گرفتار شدہ شخص اور ہر ضبطی کو پولیس کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے آپریشنل حدود میں توسیع سے پولیس کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے۔‘

تاہم بی ایس ایف کے دو سابق افسران ایم ایس مالھی اور جاگیر سنگھ سرن کا کہنا ہے کہ سرحدی فورس کے دائرہ اختیار میں توسیع سے سرحد پار سمگلنگ اور دیگر جرائم روکنے میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی بلکہ بی ایس ایف اور پولیس کے درمیان عدم اعتماد اور غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا