تبدیلی جا رہی ہے؟

ہر مسئلے کا حل یہ نہیں کہ ’اب میں ذاتی طور پر خود اسے دیکھوں گا،‘ ایک انسان آخر کس کس چیز کو ’ذاتی طور پر‘ دیکھ سکتا ہے؟

چھ  مارچ 2021 کو     وزیر اعظم عمران خان کے لیے اعتماد کے ووٹ کے دوران  حکمران  جماعت  پاکستان  تحریک انصاف  کے کارکن قومی اسمبلی  کے باہر  نعرے لگا رہے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں۔

 

بلدیاتی انتخابات کے نتائج پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی جا رہی ہے، روک سکتے ہو تو روک لو، اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ تحریک انصاف کی شکست زیادہ عبرت ناک ہے یا اس شکست کے جواز میں کیا گیا عمران خان کا ٹویٹ۔

انتخابات میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ یہ اب ہارنے والی جماعت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس شکست سے سبق حاصل کرکے اپنی اصلاح کرتی ہے یا خود فریبی کی ریت میں سر چھپا کر خود کو بھی دھوکہ دیتی ہے اور اپنے وابستگان کو بھی۔ عمران خان کی ٹویٹ بتا رہی ہے کہ انہوں نے پہلے کی بجائے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ہے۔

تحریک انصاف کی شکست کوئی انہونی نہیں، بلکہ اس میں سرے سے کوئی خبریت ہی نہیں ہے کہ اس کارکردگی کے ساتھ یہ نتائج نوشتہ دیوار تھے۔ اس شکست کی وجوہات بھی سارے جہان کو معلوم ہیں۔ تجزیہ کاروں سے نہیں (جو کم بخت سارے ہی سینیئر ہوتے ہیں، جونیئر تجزیہ کار آج تک کہیں نظر نہیں آیا) چوراہے میں کھڑے کسی بھکاری سے پوچھ دیکھیے وہ بھی اسبابِ زوالِ تحریک انصاف پر پورا مقالہ پڑھ کر سنا دے گا۔ اس شکست کی وجوہات بس ایک کپتان ہی نہ جانے ہے، عوام تو ساری جانے ہے۔

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے اقتدار کی یہ دوسری باری ہے۔ وفاق میں بھی اسی کی حکومت ہے۔ وزرائے کرام بھی اس انتخابی عمل میں پوری قوت کے ساتھ بروئے کار آئے اور حتیٰ کہ جناب سپیکر بھی، لیکن اس سب کے باوجود انتخابی نتائج کسی ڈراؤنے خواب کی طرح آئے۔ یہ معمولی شکست نہ تھی۔ لازم تھا کہ اس کی وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جاتا۔ صوبائی تنظیم کوئی جائزہ لیتی اور اس رپورٹ کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جاتا۔

لیکن ہوا کیا؟ جناب عمران خان نے خود ہی کھڑے کھڑے وجوہات کا تعین بھی فرما دیا اور ساتھ ہی حل بھی تجویز کر دیا۔ شکست کی وجہ مناسب امیدواروں کا نہ ہونا طے پائی ہے اور حل یہ ہے کہ آئندہ جناب عمران خان خود، جی ہاں خود، ان معاملات کو دیکھیں گے۔ سارے احترام کے ساتھ مجھے عرض کرنا ہے کہ شکست کی یہ ’وجہ‘ اور اس کا یہ ’حل‘ دونوں ہی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

شکست کی وجہ یہ نہیں کہ امیدواران مناسب نہیں تھے۔ بلدیاتی انتخابات میں اب پرویز خٹک اور علی امین گنڈا پور نے تو حصہ نہیں لینا تھا، مقامی قیادت ہی نے لینا تھا۔ اس مقامی قیادت کو صوبائی قیادت اور حکومت کی بھرپور تائید حاصل رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور میئر کے امیدوار ہی کو دیکھ لیجیے۔ جن صاحب کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا انہیں گورنر کے پی کے کی آشیر باد حاصل تھی۔ وہ بہت بڑی مالدار شخصیت بھی تھے۔ دو مرتبہ وہ ابو ظہبی تحریک انصاف کے صدر اور یو اے ای تحریک انصاف کے سینیئرنائب صدر رہ چکے۔ اب اگر پارٹی نے پیسے کی بنیاد پر ٹکٹ دیے یا گورنر کے امیدوار کی وزیراعلیٰ کیمپ نے سپورٹ نہیں کی تو اس سے امیدوار کیسے نامناسب ہو گئے؟ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی میں نہ کوئی ڈسپلن ہے نہ ہی کوئی اصول۔ اے ٹی ایم ڈھونڈے گئے اور دھڑے بندیاں کارفرما رہیں۔

عالم یہ ہے کہ گورنر، سپیکر اور وفاقی اور صوبائی وزرا کے حلقوں میں بھی پارٹی ہار چکی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اپنے ہی بھائی کی شکست پر پارٹی سے خفا ہیں (ٹکٹ ان کے بھائی کو ملا تھا۔ شکر ہے کہ تحریک انصاف میں موروثیت نہیں ہے)۔

اسی طرح اصلاح احوال کے لیے یہ جو ’میں خود ذاتی طور پر دیکھوں گا‘ والا نعرہ مستانہ بلند کیا جاتا ہے، یہ اب اپنی اہمیت اور معنویت کھو چکا ہے۔ اول تو مہنگائی سے لے کر پیٹرول تک اور بجلی گیس سے لے کر سریے کی قیمتوں تک اور آٹے سے لے کر چینی تک جس جس چیز کو ’خود‘ اور ’ذاتی طور پر‘ دیکھا گیا اس کا حشر نشر ہو گیا۔

عوام میں یہ بات اب کسی وعدے یا امید کی بجائے ایک دھمکی کے طور پر لی جاتی ہے کہ وزیراعظم صاحب نے کسی چیز کا نوٹس لے لیا ہے۔ زبانِ خلق بے رحم بھی ہوتی ہے اور گاہے تفنن طبع پر بھی مائل ہوتی ہے لیکن ایک جمہوری رہنما اپنے عمومی تاثر سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ رہے گا تو اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں نکلا ہے۔

جمہوریت اداروں کو اپنے اپنے مقام پر طاقتور کرنے کا نام ہے۔ ہر مسئلے کا حل اگر یہی ہے کہ ’اب میں ذاتی طور پر خود اسے دیکھوں گا‘ تو یہ تو بڑی ہی خطرناک صورت حال ہے۔ ایک انسان آخر کس کس چیز کو ’خود‘ اور ’ذاتی طور پر‘ دیکھ سکتا ہے؟ گڈ گورننس ادارہ سازی کا نام ہے، قدیم زمانے کے بادشاہ سلامت کے طرز اقتدار کا نام نہیں ہے۔

یوں لگتا ہے کہ شکست کی وجوہات پر ساری پارٹی غلطی ہائے مضامین بن چکی ہے۔ صوبائی وزرا عاطف خان اور شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ہارے جب کہ وزیراعظم کا اصرار ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ اس بے نیازی کے ساتھ حکومت کی جائے گی تو انجام مختلف کیسے ہو سکتا تھا؟

تین سال گزر گئے ہیں۔ حکمران جماعت اگر اب بھی خود احتسابی پر مائل نہیں تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین تو کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ طرز حکومت کے مسائل تو ہر حکومت کو رہتے ہیں، اس حکومت نے تو مگر کمال ہی کر دیا ہے۔ وزرائے کرام کے رویوں اور انداز گفتگو نے خلق خدا کو گھائل کر دیا ہے۔ کہیں خوئے دلنوازی نہیں، کوئی وزیر عوام سے دو نرم بول تک بولنے کا روادار نہیں۔ جسے دیکھو جنگجو ہے اور زبان بکف ہے۔ جہاں پرسہ دینا ہو یہ وہاں بھی رجز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی جاننے پر مائل ہو اسے معلوم ہو کہ تحریک انصاف اپوزیشن سے نہیں اپنی قیادت کے رویے سے ہاری ہے۔

اہلیت کا سارا غلغلہ بھی فسانہ ہی نکلا۔ سنجیدہ مسائل تو خدا جانے یہ کیسے دیکھ رہے ہوں گے، سامنے کی حقیقت تو یہ ہے کہ سردیوں کی چھٹیوں جیسے سادہ اور ہومیوپیتھک معاملے کو انہوں نے مسئلہ فیثا غورث بنا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے ہر شعبہ زندگی میں کنفیوژن ہے۔ کچھ معلوم نہیں کب کیا فیصلہ ہو جائے۔ ایک عمومی غیر یقینی نے ہر شعبہ زندگی کو گرفت میں لے رکھا ہے اور عوام کے اعصاب چٹخ کر رہ گئے ہیں۔

تبدیلی جا رہی ہے۔ روک سکتے ہو تو روک لو۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ