بلدیاتی الیکشن اور زرداری کا بیان ایک ہی سلسلے کی کڑی؟

سابق صدر آصف زرداری نے ایک بیان میں فارمولا تو دے دیا ہے مگر انکاری ہیں کہ فارمولا نہیں دیا۔

19 دسمبر، 2021 کو پشاور میں خواتین بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں (اے ایف پی)

میرا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج اور گذشتہ روز سندھ سے آصف زرداری کا آنے والا بیان دو الگ الگ واقعے نہیں بلکہ دراصل ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ یہ بات شاید آپ کو غیر منطقی لگے مگر وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 

خیبر پختونخوا میں مزاحمت سے مفاہمت کے بیانیے کو تقویت ملی۔ پی ڈی ایم بلدیاتی الیکشن جیتی نہیں بلکہ یہ اس نیم مردہ گھوڑے کو مردہ کرنے میں ایک اہم مرحلہ تھا۔ اب مولانا کس منہ سے مارچ میں لانگ مارچ کی دھمکی دیں گے؟

پشاور کے نومنتخب میئر (جن کی جیت کا حتمی اعلان ابھی باقی ہے) مولانا فضل الرحمٰن کے داماد ہیں۔ یعنی تین سو خاندانوں کی حکومت جاری ہے۔

یہ عوام کو کچھ نہیں دیں گے سارا کام اپنے مفاد میں کریں گے اور عوام کو بھی کچھ ہڈی پھینک دیں گے تاکہ وہ زیادہ شور نہ مچائیں۔ مسلم لیگ ن نے بھی مولانا کی جماعت سے اس بلدیاتی الیکشن میں انتخابی اتحاد کیا جو 2023 کی تیاری ہے۔

بلدیاتی الیکشن کے نتائج کے بعد مولانا صاحب نے فرمایا کہ ان کے لیے سارے راستے کھول دیے جائیں اور وہ موجودہ حکومت سے بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔

مولانا کو سمجھنا چاہیے کہ قوم نہیں بھولی کہ 2002 میں ان کی دو صوبوں میں حکومت تھی اور وہ خود بھی کئی سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے۔ ان کی پارٹی اس وقت عوام کے لیے کچھ نہ کر سکی، دوبارہ سیلیکٹ ہو کر آجائیں تو کیا فرق پڑ جائے گا؟

اب شہباز شریف بھی بڑے فخر سے بڑے بھائی کو کہہ سکتے ہیں ان کا فارمولا اور ڈیل کامیاب جا رہی ہے۔ اس لیے مارچ میں ہونے والا دھرنا عوام کے لیے نہیں ہو گا بلکہ ڈیل کی تصدیق کے لیے کیا جائے گا۔

یہ خبریں بھی مسلسل آ رہی ہیں کہ بڑے میاں صاحب بھی ڈیل پر گفتگو کر رہے ہیں اور مریم نواز کی توپوں کا رخ بھی اب سیلیکٹروں کے بجائے سیلیکٹڈ کی طرف ہے۔

میاں برادران کو الیکشن میں اداروں کی مداخلت پر اعتراض نہیں ہے غصہ اس بات پر ہے کہ ان کے خلاف انجینیئرنگ کیوں ہوئی۔  اس کے علاوہ پی ڈی ایم کا نہ کوئی مقصد تھا نہ کوئی اور مقصد ہو گا۔ 

دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری صاحب نے بیان دیا ہے کہ ان سے کہا گیا کہ موجودہ گمبھیر صورت حال سے نکلنے کے لیے کوئی فارمولا بنائیں مگر انہوں نے شرط یہ رکھی کہ ’سلیکٹڈ‘ حکومت کو پہلے ہٹایا جائے۔ یعنی فارمولا تو دیا مگر انکاری ہیں کہ فارمولا نہیں دیا۔

پچھلے پانچ چھ سالوں میں سیاسی انجینیئروں  کے سب سے اہم سہولت کار اور ساتھی زرداری صاحب ہی رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کی چھٹی، اقلیتی پارٹی کا سینیٹ چیئرمین، اور سینیٹ میں سیٹوں کی تجارت سب ان کے ذریعے ہوئی۔

اتنی خدمت کے بعد اب اجرت کی طلب ہے۔ اب زرداری صاحب اس امید سے ہیں کہ اگلا لاڈلا اور وزیر اعظم ان کا بیٹا ہو۔ یہی ڈیل ہے جس کے لیے بقول ان کے موجودہ ’نااہلوں‘ کو فارغ کرنا ضروری ہے۔ 

خبریں ہیں کہ اس وقت سیلیکٹر نئے لاڈلوں کے لیے انٹرویو کر رہے ہیں، مگر عوام ان سب سے تنگ آ چکے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ یہ تمام تین سو خاندان اور سیلیکٹر آپس میں رشتہ دار ہیں۔

بظاہر آپس میں لڑتے ہیں مگر دراصل مزاحمت سے مفاہمت ہی ان کا پرانا فارمولا ہے۔ ان میں سے کسی کے پاس ملک اور عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے اس لیے کہ نظام کی بہتری ان سب کی سیاسی موت ہے۔

یہ اسی نظام میں زندہ رہنا چاہتے ہیں جہاں عوام غریب سے غریب تر ہو رہے ہے اور یہ سب امیر سے امیر تر۔ 

اگلا الیکشن اس ملک کا حل نہیں ہے اور خیبر پختونخوا کا بلدیاتی الیکشن عہدوں کی تقسیم سے زیادہ کچھ نہیں۔ حل نظام کی بہتری میں ہے، جس کے لیے ہماری تجویز کردہ گول میز کانفرنس ہی واحد حل ہے جس میں قومی سیاسی مذاکرات ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔ وقت کم ہے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ