ریکوڈک معاہدہ: ’ان کیمرہ سیشن کا مطلب ہے کچھ چھپایا جا رہا ہے‘

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے کوئی معاہدہ خفیہ نہیں رکھا گیا مگر اپوزیشن رہنما اور وکلا ان کی بات سے متفق نظر نہیں آتے۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا کہ ان کیمرہ بریفنگ کا مقصد عوامی نمائندوں کو قومی اہمیت کے حامل منصوبے پر اعتماد میں لینا تھا (بلوچستان اسمبلی ویب سائٹ)

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے کوئی معاہدہ خفیہ نہیں رکھا اور ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچستان کا حصہ اس منصوبےمیں زیادہ ہو، مگر اپوزیشن رہنما اور وکلا ان کی بات سے متفق نظر نہیں آتے۔

  کوئٹہ میں سرکاری سطح پر بننے والےایک پارکنگ پلازہ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ریکوڈک کے حوالے سےعالمی کیس ہار چکے ہیں۔ 

 یہ معاملہ اس وقت بلوچستان کی سیاست اور میڈیا پر زیر بحث ہے۔ دو روز قبل بلوچستان اسمبلی کا ان کیمرہ سیشن بلایا گیا، جس میں حکومت نے اراکین اسمبلی کو اس حوالے سے بریفنگ دی۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ ان کیمرہ اسمبلی سیشن کےحوالے سے نیشنل پارٹی سے رابطہ کیا گیا تھا۔ چونکہ ان کا اسمبلی میں نمائندہ نہیں ہے تو وہ چاہتےتھے کہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ یا ان کا کوئی نمائندہ شریک ہوتا تاکہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے۔ 

اس حوالے سے جب سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرمالک بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا :’میں یہاں خاران میں ہوں میں نہیں جانتا کہ کس سے رابطہ کیا گیا۔ ‘

 ڈاکٹر مالک بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کیمرہ سیشن کا مطلب ہی یہی ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ایسا معاہدہ ہونے جارہا ہے، جو بلوچستان اور یہاں کے عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ ‘

انہوں نے بتایا : ’ہمارےدور حکومت میں ہم ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی کے ساتھ عدالت کے باہر معاہدہ کرنے جارہے تھے، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ 

مالک بلوچ کے بقول:’اگر اس وقت ہم یہ معاہدہ کرلیتے تو یہ معاملہ دو سے تین ارب ڈالر میں حل ہوجانا تھا۔ جو جرمانہ ابھی تک لگا ہے اس حد تک معاملہ نہیں چلا جاتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ آئینی صورت میں کسی بھی کمپنی سے معاہدہ کرنا صوبے کے اختیار میں ہے۔ ریکوڈک کا معاہدہ بھی حکومت کو کرنا چاہیے لیکن اطلاع ہے کے اسے وفاق یا چینی کمپنی کو دیا جارہا ہے۔  

 مالک بلوچ کہتے ہیں: ’ان کیمرہ سیشن بلانے کا مقصد کیا ہے؟ اس سے واضح ہے کہ کچھ ایسے معاملات ہیں، جن کو عوام کے سامنے نہں لایا جاسکتا ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ابھی تک اس معاہدے کے خدوخال واضح نہیں, جب سامنے آئیں گے تو  بہتر رد عمل دے سکتے ہیں۔  

مالک بلوچ نے بتایا کہ جب ان کی حکومت میں کمپنی سے بات چیت کررہی تھی تو یہ بات سامنےآئی کہ کمپنی کے ساتھ بلوچستان کا 25 فیصد حصہ رکھا گیا تھا۔ جس میں صوبے کو بھی سرمایہ کاری کرنا تھی۔  

’قوم کو اعتماد میں لینا‘

دوسری جانب 26 دسمبر کو ہونے والے ان کیمرہ اسمبلی سیشن کے حوالے سے ترجمان صوبائی حکومت کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا۔  

ترجمان نے کہا کہ ان کیمرہ بریفنگ کا مقصد عوامی نمائندوں کو قومی اہمیت کے حامل منصوبے پر اعتماد میں لینا تھا، جس میں 42 اراکین نے شرکت کی اور  جو دس گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ 

انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر متعلقہ وفاقی اداروں کے حکام کی اراکین اسمبلی کو بریفنگ دی۔  

ترجمان کے مطابق: ’ریکو ڈک پر متعلقہ عالمی اداروں کے فیصلوں اور پر عملدرآمد کی پیش رفت سے بھی اراکین کو آگاہ گیا گیا۔ اراکین اسمبلی کا مطالبہ تھا کہ ریکو ڈک منصوبے پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔ ‘ 

  ترجمان نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت بند کمروں میں فیصلے کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ریکو ڈک سمیت تمام اہم صوبائی امور پر مشاورت سے فیصلے ہونگے۔  فیصلوں میں اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینگے۔  

انہوں نے کہا: ’ان کیمرہ بریفنگ پر تنقید کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ حکومت صوبے کے حقوق و وسائل کے تحفظ کے لیۓ پوری طرح پر عزم ہیں۔ ‘

  وکلا کا بلوچستان ہائی کورٹ میں جانے کا اعادہ

اس معاملے پر سب سے پہلا رد عمل وکلا کی طرف سے آیا۔ بلوچستان بار کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کے کسی بھی غیر آئینی اقدام کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ 

بلوچستان بار کے چیئرمین قاسم گاجیزئی نے کہا  کہ ریکوڈ ک کے خفیہ معاہدے کے حوالے سے اسمبلی اجلاس پر وکلا کو ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے تمام عوام کو تحفظات ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ریکوڈ ک کے حوالے سے خفیہ معاہدہ کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کریں  گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قاسم گاجیزئی نے کہا: ’سیندک اورچائنہ سے خفیہ معاہدے کی طرح ریکوڈک کو بھی سی پیک طرز پر ڈیل کیا جا رہا ہے۔

معاملات وفاق میں طے کرنے کے بجائے صوبے کو خودمختار بنایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد خفیہ معاہدے سے احساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔ ‘

انہوں نے کہا کہ عوام کی تائید و حمایت کے برعکس فیصلے کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ بلوچستان بار کی کال پر وکلا نے ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان اسبملی کے ان کیمرہ بریفنگ کے خلاف آج منگل کے روز عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ 

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی نے بھی وکلا کے ہمراہ ہائی کورٹ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ریکوڈک کے حوالے سے کسی بھی خفیہ معاہدے کے خلاف ہر فورم پر جدوجہد کریں گے۔ 

ریکوڈک منصوبہ ہے کیا؟ 

بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع چاغی میں ریکوڈک واقع ہے۔ جس کو ’ریکئے ڈک‘ یا یعنی ریت کا ٹھیلہ کہا جاتا ہے۔ یہاں سونے کے ذخائر پائے گئے ہیں۔  

منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی ٹی تھیان جو بیرک گولڈ کینیڈا اور انٹوفاگاسٹا منرلز آف چلی کا مشترکہ وینچر ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس نے ریکوڈک پر 220 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ 

کمپنی سے حکومت پاکستان نے 2011 میں معاہدہ ختم کرکے لیز پر دینے سے انکار کیا۔ جس پر 2013 میں سپریم کورٹ نے معاہدے کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔ 

 جس کے بعد ٹی تھیان نے عالمی عدالت سے رجوع کیا اور 2017 میں ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا۔ 

ادھر صوبائی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ظہوربلیدی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکوڈک کے پیچیدہ مسئلے کی قانونی اوربین الاقوامی صورتحال پر پہلی دفعہ عوامی نمائندوں کو اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں  متعلقہ حکام، آئینی اور معدنیات کے ماہرین نے بریفنگ دی اور سوالات کے جواب دیے۔  

انہوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت بلوچستان کے وسائل اور عوام کے مفاد کا ہر صورت تحفظ کرے گی۔

 

ادھر ماہرین قانون سمجھتے ہیں کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو بریفنگ دینا سیاسی معاملات میں مداخلت ہے۔ 

راحب خان بلیدی ایڈووکیٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد معدنیات اور دیگر مسائل پر فیصلے کا اختیار صوبے کے پاس ہے۔ اس طرح کے معاملات میں وفاق نمائندوں کی بریفنگ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہماری اطلاع کے مطابق:عالمی عدالت نے پاکستان پر چھ اراب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ 

راحب خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دوسری بات اگر جرمانے کی ہے تو ریکوڈک کا معاہدہ بلوچستان نے نہیں کیا بلکہ یہ وفاق نے کیا۔ جس طرح سیندک کا معاہدہ ہے۔ جس میں بلوچستان کو صرف دو فیصد ملتا ہے۔ 

  انہوں نے کہا: ’اس سے پہلے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ سی پیک کا معاہدہ بھی خفیہ رکھا گیا ہے اور اب ریکوڈک کو بھی خفیہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ‘

  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان