ریکوڈک منصوبے میں قومی خزانے کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے افراد کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) نے احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔
ریفرنس میں جن 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے، ان میں سابق گورنر بلوچستان امیر الملک مینگل اور سابق چیف سیکرٹری بلوچستان کے بی رند بھی شامل ہیں۔
نیب کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان نے چیئرمین نیب کو رواں سال جون کے مہینے میں انکوائری کے لیے لکھا تھا، جس کے بعد کارروائی کا آغاز ہوا اور ڈائریکٹر جنرل نیب آپریشنز اور ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان کی سربراہی میں کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم نے مختلف محکمہ جات کے 30 سالہ ریکارڈ کے عرق ریزی سے معائنے کے بعد ملزمان کے خلاف ثبوت اکھٹے کیے۔
نیب اعلامیے کے مطابق: '1993 میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (بی ڈی اے) اور بروکن ہلز پروپرائیٹر نامی آسٹریلوی کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر کا ایک معاہدہ طے پایا، جس میں حکومت بلوچستان بالخصوص بی ڈی اے کے افسران کی جانب سے آسٹریلوی کمپنی کوغیرقانونی فائدہ پہنچایا گیا۔'
مزید کہا گیا: 'قومی مفادات سے متصادم اس معاہدے کی شرائط کو مزید مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف غیر قانونی طریقے سے بلوچستان مائننگ کنسیشن رولز میں ترامیم کی گئیں بلکہ بار بار غیر قانونی طور پر ذیلی معاہدوں کے ذریعے ٹیتھیان کاپر کمپنی(ٹی سی سی) نامی نئی کمپنی کو متعارف کرکے اربوں روپے کے مزید مالی فائدے حاصل کیےگئے۔'
بیان کے مطابق: 'محکمہ مال کے افسران کی جانب سے زمین کی الاٹمنٹ اور دیگر امور میں بھی شدید بے قاعدگیاں سامنے آئیں اور ملزمان نے اس مد میں مالی فوائد لینے کا اعتراف بھی کیا۔' یاد رہےکہ عالمی ثالثی ٹریبیونل کی جانب سے گذشتہ سال 2019 میں ریکوڈک کیس کے 700 صفحات پر مشتمل فیصلے میں پاکستان پر 5 اعشاریہ 976 ارب ڈالر کا بھاری ہرجانہ عائد کیا گیا تھا۔
نیب کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ 'ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور گواہان کے بیانات سے چشم کشا حقائق سامنے آئے، جس کے مطابق ٹی سی سی کے کارندے سرکاری ملازمین کو رشوت دینے اور ناجائز طور پر مفادات حاصل کرنے میں ملوث پائے گئے۔ انہی کرپٹ عناصر کی وجہ سے ریکوڈک منصوبہ، جس میں ملکی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ حاصل ہونا تھا، بدعنوانی کی نظر ہو گیا۔'
نیب کی جانب سے احتساب عدالت کے جج منور شاہوانی کی عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا، جس پر عدالت نے تمام ملزمان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 18 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔
ریکوڈک منصوبے میں کب کیا ہوا؟
ریکوڈک بلوچستان میں پاکستان، ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی میں واقع ہے، جہاں پر سونے اور کاپر کے ذخائر کا تعین کرنے کے لیے ٹی ٹھیان اور انٹوفوگسٹا، بیرک گولڈ کارپوریشن نے مل کر 1993 میں کام شروع کیا تھا۔ تاہم 2013 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ منصوبہ ’ملکی قوانین سے متصادم‘ قرار دے کر منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا۔
ریکوڈک کے علاقے سے سونے اور تانبا نکالنے کے لیے اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے 23 جولائی 1993 کو آسٹریلیا کی ایک کان کن کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کمپنی کو چاغی میں معدنیات کی کھوج کے حقوق دے دیے۔ اس معاہدے کو چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ (سی ایچ ای جے وی اے) کہا جاتا ہے، جس کے تحت بلوچستان حکومت کا حصہ 25 فیصد اور بی ایچ پی کمپنی کا حصہ 75 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔
2000 میں آسٹریلین مینکور کمپنی نے بی ایچ پی بلیٹن کے شیئرز خرید لیے اور اس طرح ریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کا یہ منصوبہ اطالوی کمپنی ٹی تھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کو منتقل ہوگیا، جو کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی کمپنی اینٹوفگستا کے مابین مشترکہ کاروبار کی ایک کمپنی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی تھیان نے 2002 میں کھدائی کا لائسنس حاصل کیا، جس کی 2006 میں مزید تین سال کے لیے تجدید کی گئی اور 2008 تک سپریم کورٹ میں کیس دائر ہونے تک اسی معاہدے کے تحت کام چلتا رہا۔ 2011 میں بلوچستان حکومت نے ٹی سی سی کی جانب سے دی گئی مائننگ لیز کی درخواست بے قاعدگی کی بنا پر مسترد کردی گئی تھی۔
جس پر کمپنی اس معاملے کو واشنگٹن ڈی سی میں واقع ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ٹربیونل (آئی سی ایس آئی ڈی) کے پاس لے گئی تاکہ اسے اس سرمایہ کاری کا معاوضہ مل سکے جو اس نے اس منصوبے پر اب تک کی تھی اور جس کی لاگت 40 کروڑ ڈالر بتائی گئی تھی۔
ٹی سی سی کی جانب سے بلوچستان حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ صوبائی حکومت نے 1993کے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ورلڈ بینک کے ثالثی ٹریبیونل انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) کی جانب سے ریکوڈک کیس میں پاکستان پر تقریباً چھ ارب ڈالر ہرجانے کے فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنانے کی ہدایت کی تھی۔