محلاتی سازشوں سے آگے

پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج اس سال میں یہی ہوگا کہ پاکستان کے بہت سے سیاسی تضادات ختم کیے جائیں لیکن ختم قانونی طور پر ہونا لازمی ہے۔

لاہور میں سال 2021 کا آخری سورج غروب ہو رہا ہے تاہم کیا نئے سال میں سیاست میں تضادات  بھی زوال دیکھے گی یا نہیں؟(اے ایف پی)

یہ سال بھی کچھ پرانے سیاسی طریقوں سے ہی شروع ہوا۔ ہمارے وزیر اطلاعات کی ٹویٹ ملاحظہ فرمائیں۔ وہ حزب اختلاف کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آگے آئیں تاکہ نئے سال میں جھگڑے کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے معاملات کو طے کرتے ہیں اور ایک اچھی روایت قائم کرتے ہیں تاکہ سیاست دان کی بھی لوگوں کی نظر میں کچھ عزت بنے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’2022 نئے سال کے آغاز پر سمجھتا ہوں ہمیں تلخیاں کم کرنے کی ضرورت ہے، حکومت اور اپوزیشن الیکشن، معیشت، سیاسی اور عدالتی اصلاحات کے لیے گفتگو کریں پاکستان ایک عظیم ملک ہے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے احساس کی ضرورت ہے پارلیمان میں فساد عام آدمی کی نظر میں سیاست دانوں کا وقار کم کرتا ہے۔‘

چلیں جی یہ تو ہوگی ایک عمدہ بات لیکن سوال تو یہ ہے کہ بات کے بعد عمل کیا ہوتا ہے۔ نومبر 11 کو جب حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا اور یہ سمجھ آگئی کے بل پاس کرانے کے لیے ووٹ کافی نہیں تو وزیر نے ایک ٹویٹ داغا۔ انہوں نے فرمایا کہ چونکہ الیکشن ریفارمز کا معاملہ اہم اور سنجیدہ ہے اس لیے اجلاس موخر کیا جاتا ہے تاکہ حکومت اپوزیشن سے اس معاملے پر بات چیت کر کے ایک مشترکہ طریقہ کار سامنے لائے۔ یہ تو تھی ٹویٹ اور عمل کیا تھا۔

17 نومبر کو پھر مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور ووٹ پورے ہوگئے، بل پاس ہو گئے اور حکومت نے جھگڑالو طریقہ کار جاری رکھا۔ یہ حقیقت تو اب زبان زد عام ہے کہ حکومت کی حمایتی جماعتوں کو پاکستان کے سیاسی مینجرز نے فون کرکے بلوں کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہا۔ اور ووٹ ڈالے گئے۔

تو بات یہ ٹھہری کے وزیر اطلاعات موقعے کی مناسبت سے کچھ دباؤ کے حالات میں صلح صفائی کی بات کر ڈالتے ہیں لیکن ان کی بات حکومت کی کوئی پالیسی یا سیاسی حکمت عملی کی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوتی۔ بس ایک سیاسی حربہ تک ہی محدود ہوتی ہے۔

حکومت کی اپوزیشن سے نمٹنے کی حکمت عملی کا ایک پہلو ’گڈ کاپ اور بیڈ کاپ‘ بھی ہے۔ مثلا فواد چوہدری کی صلح صفائی والی ٹویٹ کے برعکس وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے اپوزیشن پر خوب گولے برسائے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے ساتھ ڈیل کے معاملے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے شہباز شریف کو فوٹو شوٹ وزیر اعلی کا لقب دیا، زرداری اور بلاول کو سندھ کے گندم کھاتے چوہوں کے بارے میں لاعلمی کا طنز کیا۔ ان کو منفی سیاست سے ہٹ کر سندھ کی ترقی پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔

نواز شریف کی لندن سے آمد پر اڈیالہ جیل میں منتقلی کی یاد دہانی کروائی۔ اب سوال یہ نہیں کہ اس میں سچ کیا ہے، حقیقت کیا ہے، قانونی بات کیا ہے، غیرقانونی بات کیا ہے، مسئلہ تو حکومت کی طرز سیاست کا ہے۔

طرز سیاست میں تبدیلی بظاہر حکومت کے بس کی بات نہیں جب سیاسی مخالفین سے مقابلہ ہو اور تواتر کے ساتھ ہو تو پھر سیاست اسی نوعیت کی ہوتی ہے۔

اسی نوعیت کی سیاست تو ہم سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دہائی جیلوں میں گزار کر اور اسٹیبلشمنٹ کی قربت بن کر آخر کار چارٹر آف ڈیموکریسی پر جا رکی۔ سیاست کی نوعیت کو بدلنے کی کوشش کی حد یہ کہ 2008 میں پی پی پی اور پی ایم ایل ن کی ایک اتحادی حکومت بھی قائم ہوئی جو زیادہ دیر نہ چل سکی۔

بہرحال جمہوری سلسلہ چلتا رہا۔ یقینا بہت کمزوریاں تھیں گورننس میں، پارلیمان کو چلانے میں، معیشت کو بہتر بنانے میں لیکن کوئی خدانخواستہ ملک توڑ کے دہانے پر تو نہیں تھا۔ معاملات وقت کے ساتھ ہیں اور پروسس کے ساتھ ہی بہتری کی طرف بڑھتے ہیں۔

لیکن پھر ڈان لیکس بنا اور پاناما کیس بھی چلا اور پوسٹ مشرف دور کے بعد 2018 میں اسٹیبلشمنٹ نے ایک اور تجربہ کیا۔ عمران خان کو جو یقینا ایک مقبول رہنما تھے سہارا دے کر وزیر اعظم بنوایا۔ ان کی حکومت کے تین سال کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے کچھ دھڑوں کے حوالے سے چہ مگوئیاں کا نیا سلسلہ شروع ہے۔ ڈان لیکس اور پاناما کیس کے اسٹیبلشمنٹ کے رد کردہ نواز شریف سے بات چیت کی سرگوشیاں پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اخبارات میں اور ڈیجیٹل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

یہ ہے پاکستان کا تضاد، پاکستان کی سیاست کا تضاد اور سب سے بڑھ کے پاکستان میں پاور پلیئرز کا انجینئر کیا ہوا تضاد۔ کئی دہائیوں پر محیط پاور پلیئرز کے اس تضاد نے پاکستان کی ترقی اور پاکستانیوں کی بہتری کے لیے کیا نئے گل کھلائے؟ حقیقت پر مبنی جواب منفی ہی ہوگا۔

تو بات آگے کی ہو جائے۔ کیا اب اگر لندن میں کوئی بات چیت ہو رہی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کا جاری معاشی بحران اور انتہا کی سیاسی کشیدگی کا کیا اختتام ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں البتہ سیاسی انجینئرنگ کا ایک شاید نیا راؤنڈ شروع ہو جائے۔

تو پھر اس وقت پاکستان کے سیاسی مینیجر یعنی اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں بالخصوص نواز شریف کے درمیان کیا ہونا چاہیے۔ جیسے پاکستان کے نامور صحافی اور اینکر حامد میر نے اپنے دسمبر کے مشال ریڈیو انٹرویو میں پہلے ہی کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ بات چیت کرنا پاکستان کی سیاست کے لیے اور ہر سیاست دان کے لیے یقینا نقصان دے ہے۔ اگر معاملہ حق کا ہو تو اب وقت آگیا ہے کہ کھلے عام بات ہونی چاہیے۔ اگر عمران خان نے آئی ایس آئی کے معاملے پر ایک آئینی پوزیشن لی بھلے سے ایک غیر روایتی طریقے سے لیکن بات کھل کے ہوئی اور سر عام تجزیے کیے گئے۔

طریقہ تو یہی ہونا چاہیے۔ سیاست دان اینی بات کریں جمہوریت کی بات کریں اور انصاف کی بات کریں حقائق کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور قانونی طریقہ کار اپنا اسٹیبلشمنٹ کی اور اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر کے اور اعتراف کر کے تو بعد پھر ہی بنے گی۔ ملک کو درست سمت لے جانے کی اور آئینی طریقے کو بھرپور طریقے سے اپنانے کی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے فون کالوں پر پارلیمان میں عددی برتری حاصل کرتے رہے یا پھر لندن میں بیٹھ کر بند کمروں میں ضمانت لیتے رہیں، کمزور سیاست دان ہوں گے اور پاکستان کا جمہوری نظام بھی۔

نواز شریف کے معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کا گہرا سایہ تھا۔ حقائق تو سب جانتے ہیں ان کی درستگی صاف اور شفاف قانونی طریقے سے ان کا حق بنتا ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ کوئی چھپ کر بات کی جائے گی اور نہ ہونی چاہیے یہ بھی بات درست ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج اس سال میں یہی ہوگا کہ پاکستان کے بہت سے سیاسی تضادات ختم کیے جائیں لیکن ختم قانونی طور پر ہونا لازمی ہے۔ اعلی عدلیہ کا اس میں بہت بڑا کردار ہوگا۔ آج کی اعلی عدلیہ گزرے ہوئے کل سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ قانون اور آئین سے ہٹ کے خفیہ معاہدے کرنا محلاتی سازشوں کو پروان چڑھانا بند کرنا ہوگا۔

یہ سلسلہ اب ختم ہونا ہوگا۔ عمران خان اپنے پانچ سال مکمل کریں۔ اس سال اپنی کارکردگی کے نتیجے میں ووٹروں کہ غصے کا سامنا کریں۔ آخر بلدیاتی الیکشن میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔

الیکشن کمیشن بھی پاکستان کی سیاست میں یقینا ایک امید کی کرن ہے۔ پاکستان آئین اور آئینی اداروں کے سہارے آگے بڑھے تو اسی میں سب کی بہتری ہے۔ اس کے برعکس جو بھی کام ہوگا اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی سیاست میں متحرک رکھے گا جو کہ ہمیشہ کی طرح پاکستانیوں اور پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ