افغانستان:ہزاروں سابق خواتین سکیورٹی اہلکاروں کو طالبان سے خطرہ

این ڈی ایس کے لیے کام کرنے والی سابق سینیئر عہدیدار کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان میں این ڈی ایس کے لیے چھ ہزار آٹھ سو خواتین کام کر رہی تھیں۔

سات جون 2010 کی اس تصویر میں افغان نیشنل پولیس کی ایک خاتون اہلکار کو قندھار شہر میں ایک تربیتی سیشن میں شریک دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی فائل)

ماضی میں سکیورٹی اہلکاروں کے طور پر کام کرنے والی ہزاروں خواتین افغانستان میں پھنسی ہوئی ہیں جن کو طالبان کی جانب سے شدید خطرے کا سامنا ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق طالبان نے اگست میں اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد افغانستان کی سکیورٹی سروس اور انٹیلی جنس ایجنسی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ (این ڈی ایس) کو ختم کر دیا تھا۔

این ڈی ایس کے ایجنٹس نے طالبان اور القاعدہ کی نگرانی اور ان کے خلاف کارروائیوں کے لیے ماضی میں برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔

دی انڈپینڈنٹ سے ایک خصوصی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے ایجنسی میں بطور سینیئر اہلکار کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا ہے کہ انہیں اپنی جان کا خوف ہے اور وہ اس وقت طالبان کے ڈر سے ملک میں روپوش ہیں۔

سابق ایجنٹ نے تحفظ کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگست کے وسط میں طالبان کے درالحکومت پر قبضے کے بعد وہ کابل سے باہر دیہاتوں میں چھپنے کے لیے فرار ہو گئیں اور اس کے بعد سے وہ اپنے گھر واپس جانے سے بہت خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد سے طالبان کے ارکان ان کی تلاش میں چھ بار ان کے گھر پر چھاپہ مار چکے ہیں۔

35 سال تک این ڈی ایس کے لیے کام کرنے والی ان 60 سالہ خاتون نے مزید کہا کہ پڑوسیوں اور ان کے گھر پر تعینات نجی گارڈز نے انہیں بتایا کہ طالبان تین بار گرمیوں میں اور تین بار سردیوں میں انہیں پکڑنے کے لیے کارروائی کرچکے ہیں۔

17 اگست تک طالبان تین بار پولیس کی تین کاروں کے ساتھ آئے۔ اس چھاپے میں طالبان کے تقریباً 20 یا 25 ارکان نے حصہ لیا جو دروازہ توڑ کر گھر کے اندر گھس آئے تھے۔

اس وقت مختلف دوستوں کے گھروں میں روپوش سابق خواتین ایجنٹس اپنے متروکہ گھر کو ایک خوبصورت پرانی پراپرٹی قرار دیتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ پڑوسیوں کی جانب سے طالبان کو فون پر اطلاع کردینے کے ڈر سے وہ اپنے پرانے گھر سے کچھ قیمتی سامان لانے سے بھی خوفزدہ ہیں۔

انہوں نے کہا: ’مجھے دن کا وقت پسند نہیں ہے کیوں کہ مجھے ہر وقت چھپ کر رہنا پڑتا ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی میرا پتہ طالبان کو نہ دے دے۔ میں سیر کے لیے نہیں جا سکتی۔ میں نے اپنی آزادی کھو دی ہے۔ میں ورزش کے لیے بھی باہر نہیں نکل سکتی۔ میں اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہوں۔‘

’میں اپنے ٹھکانے میں روشنی بھی نہیں کرسکتی کیوں کہ میں ڈرتی ہوں۔ میرا وزن بہت زیادہ بڑھ گیا ہے کیوں کہ مجھے ہر وقت اپنے کمرے میں رہنا پڑتا ہے۔ مجھے صحت کے بہت سے مسائل نے گھیر لیا ہے۔ میں پریشانی کی وجہ سے بہت زیادہ کھانے لگتی ہوں۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ وہ دمہ اور جوڑوں کے درد کا شکار ہیں لیکن انہیں اپنی معمول کی دوائیوں تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی خوفزدہ ہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے طالبان کو ان کے ٹھکانے کا پتہ چل جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ اپنی بیٹی اور نواسی سے بھی نہیں مل سکتیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی موجودگی انہیں طالبان کے خطرے سے دوچار کر دے گی۔

سابق خاتون ایجنٹ نے بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے افغانستان میں این ڈی ایس کے لیے چھ ہزار آٹھ سو خواتین کام کر رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کچھ خواتین ایجنٹس ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ہوں لیکن ان کا خیال ہے کہ ایسی ہزاروں خواتین اب بھی ملک میں پھنسی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’یہ خواتین چھپی ہوئی ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے فون نمبرز تبدیل کر لیے ہیں۔‘

ان خاتون کے دو بچے جرمنی میں اور دو آسٹریلیا میں رہتے ہیں اور انہوں نے دونوں ملکوں میں پناہ کے لیے درخواست دی ہے لیکن انہیں وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا۔

وہ افغانستان چھوڑ کر ایران یا برطانیہ جانے پر غور کر رہی ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک کسی بھی ملک کی شہریت کے لیے درخواست نہیں دی ہے۔

ان کے بقول: ’اگر میں افغانستان میں رہوں گی تو میں مر جاؤں گی۔ یہاں کے لوگ خوفزدہ ہیں۔ خاص طور پر خواتین بہت خوفزدہ ہیں۔ طالبان کے آنے سے پہلے میں صبح کی سیر کرتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔ میں نے ورزش کے ساتھ بھرپور زندگی گزاری ہے۔ اب میری سماجی زندگی تباہ ہوگئی۔‘

’دنیا ان خواتین کے بارے میں نہیں سوچ رہی جنہوں نے این ڈی ایس کے ساتھ کام کیا۔ میں نے اپنے ملک اور اس کی سلامتی کے لیے کام کیا۔ طالبان قاتلوں اور غیر انسانی لوگوں کا کا گروہ ہے۔ طالبان خواتین کی آزادی کے قاتل ہیں۔ جب میں آنکھیں بند کرتی ہوں تو طالبان کے بارے میں سوچتی ہوں۔‘

ان کے یہ تبصرے ہیومن رائٹس واچ کی ایک پریشان کن رپورٹ کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ طالبان نے گذشتہ سال ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے 100 سے زائد سابق پولیس اور انٹیلی جنس افسران کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے یا انہیں زبردستی لاپتہ کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم معروف خیراتی ادارے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیدر بار نے کہا کہ وہ سکیورٹی سروسز کے لیے کام کرنے والی خواتین کے انخلا کے لیے کسی منظم کوشش سے آگاہ نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ایسی کچھ خواتین افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ہیں لیکن ہزاروں اب بھی وہاں پھنسی ہوئی ہیں۔

ایسی خواتین کے لیے مہم چلانے والی بار نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ بات انتہائی مایوس کن ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک نے خواتین کو این ڈی ایس، فوج اور پولیس میں ضم کرنے کی کوششیں کیں لیکن اب وہ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ’اب مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔‘

بار نے مزید کہا: ’صرف اس لیے نہیں کہ وہ ایسے شعبوں میں کام کر رہی ہیں جنہیں طالبان خواتین کے لیے ناقابل قبول سمجھتے تھے بلکہ اس لیے کہ وہ ہر ایسے شخص کے خلاف ہیں جو طالبان کے خلاف کام کر چکا ہے، جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والا کوئی بھی شامل ہے۔ یہ صورت حال ایک دھوکہ دہی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔‘

ایک ایسے وقت جب افغانستان ایک بڑے انسانی بحران کی گرفت میں ہے، طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے خواتین کے حقوق پر قدغن لگا دی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو ملازمت کرنے اور اعلیٰ تعلیم سے روک دیا ہے۔

طالبان نے 1996 سے 2001 تک ملک پر اپنے پہلے حکومت کے دوران خواتین کو کام کرنے یا کسی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے روک دیا گیا تھا اور لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا