جہاز اڑا تو معلوم ہوا کہ ہم افغانستان سے جا رہے ہیں: اشرف غنی

اشرف غنی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جب وہ 15 اگست کو نیند سے جاگے تو انہیں ’کوئی شائبہ‘ نہیں تھا کہ یہ افغانستان میں ان کا آخری دن ہو گا۔

سابق افغان صدر اشرف غنی 28 جولائی 2021 کو جوائنٹ کوآرڈینیشن اینڈ مانیٹرنگ بورڈ کے اجلاس میں شریک ہیں (تصویر: اے ایف پی)

سابق افغان صدر اشرف غنی نے جمعرات کو بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں افغانستان چھوڑنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ملک سے نکل جانے کا فیصلہ اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے کیا تھا۔

بی بی سی فور ٹوڈے کے گیسٹ ایڈیٹر جنرل سر نک کارٹر کو دیے جانے والے انٹرویو کے دوران سابق افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ جب وہ 15 اگست کو نیند سے جاگے تو انہیں ’کوئی شائبہ‘ نہیں تھا کہ یہ افغانستان میں ان کا آخری دن ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے جہاز نے کابل کا ہوائی اڈہ چھوڑا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ ملک سے جا رہے ہیں۔

سابق افغان صدر اشرف غنی پر مشکل حالات میں ملک چھوڑ کر چلے جانے پر تنقید کی جا رہی ہے اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں۔

اشرف غنی نے یہ بیان جنرل سر نک کارٹر سے گفتگو میں دیا ہے جو کہ برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف رہ چکے ہیں اور بطور مہمان مدیر جمعرات کو پروگرام کر رہے تھے۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ جب دن کا آغاز ہوا تو طالبان جنگجو اس بات پر رضامند تھے کہ وہ شہر میں داخل نہیں ہوں گے لیکن چند گھنٹوں بعد ایسا نہیں ہوا۔

صدر غنی نے بتایا کہ ’طالبان کے دو مختلف گروہ مختلف سمتوں میں سے اندر داخل ہوئے۔ ان کے درمیان ممکنہ تصادم سے 50 لاکھ افراد کا شہر کابل ملیا میٹ ہوجاتا اور عوام میں جو افراتفری پھیلتی وہ بے تحاشا ہوتی۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ اس بات پر رضامند ہوئے کہ ان کے قومی سلامتی کے مشیر اور ان کی اہلیہ کابل چھوڑ دیں اس کے بعد وہ ایک گاڑی کا انتظار کرتے رہے جو انہیں وزارت دفاع تک لے جاتی، لیکن ایسی کوئی گاڑی پہنچی ہی نہیں۔ اس کی بجائے صدارتی سکیورٹی کے ’دہشت زدہ‘ سربراہ ڈاکٹر محب ان کے پاس آئے اور کہا کہ اگر اشرف غنی (طالبان کے خلاف) اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو ’ہم سب مارے جائیں گے۔‘

سابق افغان صدر نے کہا، ’انہوں نے مجھے دو منٹ سے زیادہ نہیں دیے۔ میری ہدایت تھی کہ خوست روانگی کی تیاری کریں۔ انہوں نے بتایا کہ خوست اور جلال آباد پر قبضہ ہو چکا ہے۔‘

’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ جب ہم نے پرواز کی تو واضح ہو گیا کہ ہم افغانستان چھوڑ رہے ہیں۔ تو یہ بالکل اچانک تھا۔‘

اشرف غنی کے یوں اچانک ملک سے روانہ ہونے پر افغانستان کے اندر اور باہر ان پر خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے اور تنقید کرنے والوں میں ان کے نائب صدر امراللہ صالح بھی شامل ہیں جو اسے ’ذلت آمیز‘ کہہ چکے ہیں۔

اس سے قبل اشرف غنی کے بیانات

سابق افغان صدر اشرف غنی نے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد اپنے پہلے فیس بک پیغام میں افعانستان کے لوگوں کو مخاطب کر کے اپنے فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور طالبان کو عوام کے دل جیتنے کی تاکید کی تھی۔

انہوں نے فیس بک پر اپنے پیغام کا آغاز ’عزیز ہم وطنو‘ سے کیا تھا اور لکھا تھا کہ ’آج مجھے ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ مجھے ان مسلح طالبان کا سامنا کرنا تھا جو محل میں داخل ہونا چاہتے ہیں یا پھر اس ملک کو چھوڑنا تھا جس کی میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ 20 سالوں کے دوران حفاظت اور پرورش کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا تھا: ’اگر اب بھی بے شمار ہم وطنوں کو شہید کیا گیا تو انہیں تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور کابل شہر تباہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں 60 لاکھ آبادی والے شہر میں بڑی انسانی تباہی ہو گی۔‘ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ اشرف غنی پہلے اپنے فیس بک پیج پر کابل کی آبادی 60 لاکھ بتا چکے ہیں لیکن اپنے تازہ انٹرویو میں انہوں نے انخلا سے قبل کابل کی آبادی 50 لاکھ بتائی ہے۔

اشرف غنی نے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ’طالبان نے یہ سب اس لیے کیا کہ وہ مجھے بےدخل کرنا چاہتے تھے وہ یہاں اس لیے ہیں کہ وہ پورے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ خونریزی کے سیلاب کو روکنے کے لیے میں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔‘

انہوں نے طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کے تمام لوگوں، نسلوں، مختلف طبقات، بہنوں اور خواتین کے دل جیتیں اور اپنی قانونی حیثیت حاصل کریں۔

اشرف غنی بدعنوان ترین رہنماؤں میں شامل

حال ہی میں آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ نامی ایک تنظیم نے سب سے بدعنوان سربراہان کی ایک سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں ترک صدر رجب طیب اردوغان اور افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے نام بھی شامل ہیں۔

پینل نے اشرف غنی کے بارے میں لکھا کہ ’غنی بھی یقیناً ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے غضب کی کرپشن کی ہے اور انتہائی نااہل ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لوگوں سے بے وفائی کی اور انہیں مصیبتوں اور موت کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا تاکہ متحدہ عرب امارات میں بدعنوان سابق ریاستی عہدے داروں کے درمیان رہ سکیں۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا