اشرف غنی کابل میں رہتے تو پرامن معاہدہ ممکن تھا: حامد کرزئی

حامد کرزئی کے مطابق اشرف غنی کے حفاظتی دستے کے نائب سربراہ نے حامد کرزئی کو کال کر کے دعوت دی کہ وہ صدارتی محل پہنچ کر صدارت سنبھال لیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

کرزئی کا کہنا ہے کہ دنیا کو طالبان سے رابطہ رکھنا ہو گا۔ افغانستان کو فعال رہنا ہو گا۔ حکومتی اہلکاروں کو تنخواہیں ادا کرنا ہوں گی اور محکمہ صحت کو مکمل طور پر کام کرنا ہو گا(اے ایف پی فائل)

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا آج اپنے انٹرویو میں کہنا تھا کہ طالبان نے کابل پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انہیں کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’طالبان کو کابل میں آنے کی دعوت میں نے دی تاکہ ملک کے شہریوں کی حفاظت کی جا سکے اور کابل شہر افراتفری میں نہ گھر جائے۔‘

ان کے مطابق ’اس دعوت کا ایک اور مقصد ملک اور کابل کو ان لوگوں سے بچانا تھا جو حالات خراب ہونے کی صورت میں لوٹ مار کا بازار گرم کر سکتے تھے۔‘

انٹرویو کے مطابق ’جب اشرف غنی نے افغانستان چھوڑا تو ان کے حفاظتی اہلکار بھی شہر چھوڑ گئے۔‘ وزیر دفاع بسم اللہ خان نے تو حامد کرزئی سے بھی پوچھ لیا کہ کیا وہ کابل چھوڑنا چاہتے ہیں۔

کرزئی نے ان سے بچھی کچھی حکومت کا مستقبل جاننے کے لیے رابطہ کیا تھا۔ حامد کرزئی کو معلوم ہوا کہ حکومت مکمل طور پر گر چکی ہے، حتی کے کابل پولیس کے سربراہ بھی شہر میں نہیں رہے۔

حامد کرزئی جو 13 سال تک افغانستان کے صدر رہے۔ وہ اس وقت افغانستان کے صدر بنے تھے جب نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے حملہ کر کے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ختم کر دیا تھا۔ حامد کرزئی نے اشرف غنی حکومت کے خاتمے کے بعد کابل چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

کابل کے ایک کشادہ گھر میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ رہائش پذیر حامد کرزئی نے اس انٹرویو میں بہت سے معاملات پر بات کی ہے۔ کرزئی بضد تھے کہ اشرف غنی کا کابل سے پرواز کرنا ان کی، چیف مذاکرات کار عبداللہ عبداللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت کی مرضی سے ہوا جو معاہدے کے حصے کے طور پر طالبان کو شہر میں داخل ہونا دیکھنا چاہتے تھے۔

یہ حالات 14 اگست ناگزیر ہو چکے تھے یعنی طالبان کے کابل میں داخلے سے ایک روز قبل ایسا ہونا ناگزیر تھا۔

ان کے مطابق کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اگلے روز دوحہ جائیں گے تاکہ طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کے معاہدے پر بات چیت کی جا سکے۔ ان کے اس وفد میں دیگر 15 افراد بھی شامل ہوتے۔ اس وقت طالبان کابل کے نواح تک پہنچ چکے تھے لیکن کرزئی کا کہنا ہے کہ دوحہ میں موجود طالبان قیادت نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ معاہدہ ہونے تک طالبان عسکریت پسند شہر سے باہر رہیں گے۔

کرزئی کا کہنا تھا کہ ’15 اگست کو میں فہرست میں موجود لوگوں کا انتظار کر رہا تھا لیکن کابل شہر میں بے یقینی کی صورت حال تھی۔ شہر میں طالبان کے قبضے کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں۔‘

کرزئی نے دوحہ سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔

کرزئی کے مطابق دوپہر کے وقت طالبان نے اعلان کیا کہ ’حکومت اپنے مقام پر موجود رہے۔ وہ اپنی جگہ مت چھوڑیں کیونکہ طالبان شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ میں نے اور دیگر افراد نے مختلف حکام سے بات کی اور ہمیں یقین دلایا گیا کہ امریکی اور حکومتی افواج اپنی جگہ پر موجود ہیں اور کابل کا سقوط نہیں ہو گا۔‘

کرزئی کا کہنا تھا کہ ’دن کو دو بجکر 45 منٹ پر یہ سامنے آچکا تھا کہ غنی کابل سے جا چکے ہیں۔ میں نے وزیر دفاع سے رابطہ کیا، میں نے وزیر داخلہ سے بات کی اور کابل کے پولیس چیف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن سب جا چکے تھے۔‘

یاد رہے اشرف غنی نے کابل چھوڑنے کے بعد اپنے فیس بک پیغام میں لکھا تھا کہ طالبان دل جیت کر قانونی حیثیت حاصل کریں۔

کرزئی کہتے ہیں کہ ’کابل میں کوئی عہدیدار موجود نہیں تھا۔ نہ پولیس سربراہ، نہ کور کمانڈر نہ ہی کوئی اور یونٹ۔ وہ سب جا چکے تھے۔‘

حامد کرزئی کے مطابق اشرف غنی کے حفاظتی دستے کے نائب سربراہ نے حامد کرزئی کو کال کر کے دعوت دی کہ وہ صدارتی محل پہنچ کر صدارت سنبھال لیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قانونی طور پر ایسا کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے ٹیلی ویژن پر ایک پیغام جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ان کے بچے بھی ان کے ساتھ موجود تھے تاکہ ’افغان شہریوں کو معلوم ہو سکے کہ وہ سب یہیں موجود ہیں۔‘

کرزئی کا اصرار ہے کہ ’اگر اشرف غنی کابل میں رہتے تو انتقال اقتدار کا معاہدہ پرامن طور پر ممکن تھا۔‘

کرزئی کا کہنا ہے کہ ’ایسا ہونا ممکن تھا، ہم اس کے لیے ہی تیاری کر رہے تھے۔ میرا ماننا ہے کہ دوحہ میں موجود طالبان قیادت بھی اسی بات کا انتظار کر رہی تھی۔‘

کرزئی آج بھی افغانستان میں موجود ہیں اور وہ لگاتار طالبان کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’افغانوں کو متحد ہونا ہو گا۔ افغانستان کو 40 سال جنگ کا سامنا رہا ہے اور گذشتہ 20 سال میں ’سب کو ہی بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’افغان فوج کو نقصان ہوا ہے، افغان پولیس کو نقصان ہوا ہے اور طالبان جنگجوؤں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اس کا حل نکالنا ہو گا اور ایسا صرف تب ہی ہو سکتا ہے جب تمام افغان متحد ہوں گے۔‘

افغان صدر کے مطابق وہ اس حوالے سے بھی منصوبہ رکھتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ اپنی بات چیت میں وہ افغانستان کے سابق شاہی آئین کی بحالی کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ خیال دوحہ مذاکرات کے دوران پیش کیا گیا تھا۔

دریں اثنا روایتی لویہ جرگہ جس میں افغانستان کے مشران، بشمول خواتین کو بلایا جائے گا۔ یہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ جس میں نمائندہ حکومت، آئین اور ملکی پرچم کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ابھی تک ایسے کوئی آثار سامنے نہیں آئے کہ طالبان اس فارمولے کو قبول کر لیں گے لیکن حامد کرزئی کے مطابق انہوں نے ابھی تک اس کو مسترد نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرزئی کا کہنا ہے کہ ’دنیا کو طالبان سے رابطہ رکھنا ہو گا۔ افغانستان کو فعال رہنا ہو گا۔ حکومتی اہلکاروں کو تنخواہیں ادا کرنا ہوں گی اور محکمہ صحت کو مکمل طور پر کام کرنا ہو گا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان افغان ہیں لیکن وہ افغان اپنی زندگیوں میں بہت مشکل حالات سے گزرے ہیں۔ گذشتہ 40 سال میں دیگر افغانوں کو بھی انہیں حالات کا سامنا رہا ہے۔‘

یاد رہے 15 اگست کو کابل میں داخل ہونے قبل طالبان نے بزور طاقت کابل میں داخل نہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ 

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان جنگجو دارالحکومت کابل میں داخل نہیں ہوں گے اور انہیں شہر کے داخلی راستوں پر انتظار کرنے کا کہا گیا ہے۔

طالبان ترجمان نے اپنی ٹویٹ میں پوسٹ کیے جانے والے بیان میں کہا تھا کہ ’امارات اسلامی نے اپنے تمام جنگجوؤں کو ہدایت کی ہے وہ کابل کے داخلی راستوں پر رک جائیں اور شہر میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔‘

طالبان ترجمان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’ہمارے جنگجو شہر میں داخل نہیں ہو رہے اور ہم پر امن طور پر اقتدار کی منتقلی چاہتے ہیں۔‘

تاہم چند گھنٹوں بعد افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے اپنے ٹویٹر پیغام میں طالبان کو کابل کے اندر داخل ہونے اور شہر کا نظام سنبھالنے کا حکم جاری کیا تھا۔ 

امارات اسلامیہ افغانستان کے ترجمان کے اس بیان کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شیئر کیا تھا۔ جس میں جنگجوؤں کو یہ تنبیہ کی گئی تھی کہ شہر میں کسی کی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی گھروں میں موجود شہریوں کو تنگ گیا جائے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا