جنوبی چین سمندر میں چینی دعوؤں کی کوئی قانونی بنیاد نہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں بیجنگ سے دوبارہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں اپنی غیر قانونی اور دھونس پر مبنی سرگرمیاں بند کر دے۔

بیجنگ کے ان دعوؤں نے چین کو فلپائن، ویت نام اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا ہے(اے ایف پی فائل)

امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کے ’غیر قانونی‘ ملکیت کے دعووں کے خلاف اپنا سب سے تفصیلی کیس پیش کر دیا۔ جس میں چین کے دعوؤں کی جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں کو مسترد کیا گیا ہے۔

47 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی مقالے میں امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف اوشینز اینڈ انٹرنیشنل انوائرمنٹل اینڈ سائنسٹفک افیئرز نے کہا کہ ’چین کے ان دعووں کی بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی بنیاد نہیں ہے۔‘

جبکہ بیجنگ کے ان دعوؤں نے چین کو فلپائن، ویت نام اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا ہے۔

مقالمے میں عوامی جمہوریہ چین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا: ’ان سمندری دعووں کا مجموعی اثر یہ ہے کہ چین غیر قانونی طور پر جنوبی بحیرہ چین کے بیشتر حصے پر خودمختاری یا کسی نہ کسی طرح کے خصوصی دائرہ اختیار کا دعویٰ کرتا ہے۔‘

اس میں چین کی جانب سے توثیق شدہ سمندری قانون سے متعلق 1982 کے اقوام متحدہ کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا: ’یہ دعوے سمندروں میں قانون کی حکمرانی اور کنونشن میں کئی تسلیم شدہ شقوں کو بری طرح نقصان پہنچاتے ہیں۔‘

امریکہ خود اس معاہدے کی توثیق نہیں کرتا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں بیجنگ سے دوبارہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں اپنی غیر قانونی اور دھونس پر مبنی سرگرمیاں بند کر دے۔

یہ مقالہ 2014 کے مطالعے کی اپ ڈیٹ ہے جس نے اسی طرح چین کے دعوؤں کی بنیاد فراہم کرنے والے نام نہاد ’نائن ڈیش لائن‘ کو متنازع بتایا گیا ہے۔

2016 میں ایک بین الاقوامی عدالت نے چین کے دعووں کے خلاف شکایات پر فلپائن کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ بیجنگ نے نئے جواز پیش کرتے ہوئے اس کے جواب میں کہا تھا کہ چین کے علاقے پر ’تاریخی حقوق‘ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی محکمہ خارجہ کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے تاریخی دعوؤں کی ’کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے‘ اور یہ کہ چین نے اس کی تفصیلات بھی پیش نہیں کیں۔

مقالمے میں چین کے دعووں کے جغرافیائی جواز کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’بحیرہ جنوبی چین میں 100 سے زیادہ سمنری خطے بلند لہروں کے دوران پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور اس وجہ سے یہ کسی بھی ریاست کے علاقائی سمندر کی قانونی حدود میں نہیں آ سکتے۔‘

بیجنگ چار جزیروں کے گروپس پر دعویٰ کرنے کے لیے ایسی جغرافیائی خصوصیات کا حوالہ دیتا ہے جن کے بارے میں امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت بنیادی اصولوں کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہے جب امریکہ عالمی سطح پر چین کو تیزی سے چیلنج کر رہا ہے۔

2020 میں اس وقت کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بحیرہ جنوبی چین میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے دعوؤں کی واضح طور پر حمایت کی تھی۔

بحیرہ جنوبی چین شپنگ لین اور تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال بحری خطہ ہے اور بیجنگ کے پڑوسی ممالک نے اکثر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چین وسعت پسندی کی جانب گامزن ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا