جوہری ہتھیاروں کو ’جدید بنانے‘ کا عمل جاری رکھیں گے: چین

چین نے اپنی جوہری ہتھیاروں کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اور امریکہ، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں، کو ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔

  یکم اکتوبر   2019 کی اس تصویر میں    بیجنگ کے تیان مین سکوائر پر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک فوجی پریڈ کے دوران جوہری صلاحیت کے حامل بین البراعظمی بیلسٹک میزائل دیکھے جا سکتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

چین نے منگل کو کہا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو ’جدید بنانے‘ کا عمل جاری رکھے گا۔ ساتھ ہی اس نے امریکہ اور روس سے اپنے جوہری ذخیرے کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

چین کی جانب سے ہتھیاروں میں اضافے کے بارے میں عالمی خدشات بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر جب اس کی مسلح افواج نے پچھلے سال اعلان کیا تھا کہ اس نے ایک ہائپر سونک میزائل تیار کیا ہے جو آواز کے پھیلاؤ سے پانچ گنا زیادہ پرواز کر سکتا ہے۔

امریکہ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ چین 2027 تک 700 اور ممکنہ طور پر 2030 تک 1000 وار ہیڈز کے ساتھ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو چین نے اپنی جوہری ہتھیاروں کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ روس اور امریکہ، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں، کو ہتھیاروں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔

چینی وزارت خارجہ میں ہتھیاروں کے کنٹرول کے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل فو کانگ نے صحافیوں کو بتایا: ’امریکہ اور روس کے پاس اب بھی زمین پر 90 فیصد جوہری جنگی ہتھیار موجود ہیں۔ انہیں اپنے جوہری ہتھیاروں کو ناقابل واپسی اور قانونی طور پر پابند طریقے سے کم کرنا چاہیے۔‘

جنرل فو کانگ نے مزید کہا: ’امریکہ کا یہ دعویٰ کہ چین اپنی جوہری صلاحیتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر رہا ہے، غلط ہے۔ چین نے ہمیشہ جوہری صلاحیتوں کو پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اور ہم اپنی جوہری صلاحیتوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ضروری کم سے کم سطح پر برقرار رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو بھروسے اور حفاظت کے مسائل کے لیے جدید بنانا جاری رکھے گا۔‘

عالمی جوہری قوتوں کا غیر معمولی مشترکہ بیان

واضح رہے کہ پانچ عالمی جوہری قوتوں نے پیر کو ایک غیر معمولی مشترکہ بیان میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے اور جوہری تنازعے سے بچنے کا عہد اور مغرب و مشرق کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے مقصد کا اعادہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ نے کہا کہ ’ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح کے ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو روکنا ہوگا۔ جوہری جنگ نہیں جیتی جا سکتی اور نہ ہی کبھی لڑی جانی چاہیے۔‘

یہ بیان جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے متعلق معاہدے (این پی ٹی) کے تازہ ترین جائزے کے بعد جاری کیا گیا تھا جو پہلی بار 1970 میں نافذ ہوا تھا- کووڈ 19 وبا کی وجہ سے اس کی مقررہ تاریخ 4 جنوری سے سال کے آخر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔

اس سے قبل چین اور روس اور ان کے مغربی شراکت داروں دونوں کے درمیان حالیہ بڑی کشیدگیوں کے باوجود پانچوں عالمی طاقتوں نے کہا کہ وہ ’جوہری ہتھیاروں والی ریاستوں کے درمیان جنگ سے گریز اور تزویراتی خطرات میں کمی کو اپنی اولین ذمہ داریاں سمجھتے ہیں۔‘

جوہری طاقتوں نے اپنے بیان میں مزید کہا: ’ہم میں سے ہر ایک جوہری ہتھیاروں کے غیر مجاز یا غیر ارادی استعمال کو روکنے کے لیے اپنے قومی اقدامات کو برقرار رکھنے اور مزید مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘

بیان میں این پی ٹی میں ایک اہم آرٹیکل کی پاسداری کا بھی وعدہ کیا گیا ہے جس کے تحت ریاستوں نے مستقبل میں جوہری ہتھیاروں سے مکمل تخفیف اسلحہ کا عہد کیا ہے جس کو دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان پر امریکی بم دھماکوں میں صرف تنازع میں استعمال کیا گیا ہے۔

’بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم سخت کنٹرول میں عمومی اور مکمل تخفیف اسلحہ کے متعلق معاہدے پر اپنی این پی ٹی ذمہ داریوں بشمول اپنی آرٹیکل 6 کی ذمہ داریوں کے لیے پرعزم ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق مجموعی طور پر 191 ریاستیں اس معاہدے میں شامل ہو چکی ہیں۔ معاہدے کی دفعات میں ہر پانچ سال بعد اس کے آپریشن پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کشیدگی کو کم کرنا

یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب یوکرینی سرحد کے قریب روسی فوج کی تعداد میں اضافے سے روس اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اس بلندی پر پہنچ گئی ہے جو سرد جنگ کے بعد شاذ و نادر ہی دیکھی گئی ہے۔

اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نیٹو کی مزید مشرق کی جانب توسیع کے امکان سے پریشان روس اپنے مغربی حامی ہمسایہ ملک پر ایک نئے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ روس اور امریکہ کے درمیان یورپی سلامتی کے بارے میں مذاکرات 10 جنوری کو جنیوا میں متوقع ہیں۔

دریں اثنا صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے بھی خدشات ظاہر کیے ہیں کہ واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی تنازع کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر تائیوان کے جزیرے پر۔

روس نے جوہری طاقتوں کے اعلان کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس سے عالمی کشیدگی میں کمی آئے گی۔

روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی سلامتی کے موجودہ مشکل حالات میں اس طرح کے سیاسی بیان کی منظوری سے بین الاقوامی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤشو کے حوالے سے سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا نے کہا ہے کہ اس عہد سے ’باہمی اعتماد بڑھانے اور بڑی طاقتوں کے درمیان مسابقت کو ہم آہنگی اور تعاون سے تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔‘

جنیوا سینٹر فار سکیورٹی پالیسی میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے سربراہ مارک فینوڈ نے کہا کہ یہ خیال کہ کوئی بھی جوہری جنگ ناقابل تسخیر ہوگی، سوویت رہنما میخائل گورباچوف اور اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے 1985 میں پیدا کیا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا جب ان پانچ طاقتوں نے اسے اٹھایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ غیر جوہری ریاستوں اور این جی اوز کے مطالبات کے بعد انہوں نے سبقت لے لی ہے اور اس نظریے پر واپس آ گئے ہیں۔

یہ مشترکہ بیان اس وقت بھی سامنے آیا جب عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ اس کی متنازع جوہری مہم پر 2015 کے معاہدے کی بحالی پر اتفاق کرنا چاہتی ہیں جسے امریکہ نے 2018 میں معاہدے سے باہر نکلنے کی وجہ سے ختم کر دیا تھا۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا کہ ہمیں ویانا مذاکرات میں مغربی جماعتوں کی جانب سے پسپائی یا حقیقت پسندی کا احساس ہے۔

گذشتہ سال کے آخر میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک پروگرام میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے دنیا بھر میں 13 ہزار جوہری ہتھیاروں کے وجود کو بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیا تھا جس میں یہ خطرہ تھا کہ سرد جنگ کے بعد کسی بھی وقت کے مقابلے میں ان کا استعمال زیادہ کیا جا سکتا ہے۔

پیر کو گوٹیرس کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ سیکرٹری جنرل نے نئے مشترکہ بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔

دوجارک نے ایک بیان میں کہا کہ سیکرٹری جنرل جو پہلے بھی کہتے رہے ہیں وہی دوبارہ بھی کہیں گے کہ: تمام جوہری خطرات کو ختم کرنے کا واحد طریقہ تمام جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنا ہے۔

جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم (آئی سی اے این) کی فرانسیسی شاخ  کے جین میری کولین نے بھی اس ’مثبت‘ اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔

لیکن انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ حقیقت کہ ہر کوئی ایک ہی وقت میں اپنے اسلحہ خانوں کو جدید بنا رہا ہے اور تجدید کر رہا ہے، اسے عہد کو مکمل طور پر کمزور کر دیتا ہے۔

این پی ٹی چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ کو جوہری ہتھیاروں کی طاقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔

تاہم بھارت اور پاکستان نے جوہری ہتھیار بھی تیار کر لیے ہیں جبکہ اسرائیل کے بارے میں وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار رکھتا ہے لیکن اس بات کا سرکاری طور پر کبھی اعتراف نہیں کیا۔

یہ تینوں ریاستیں این پی ٹی پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل نہیں ہیں۔ شمالی کوریا، جس نے جوہری ہتھیار بھی تیار کیے ہیں 2003 میں این پی ٹی سے باہر نکل گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا