بھارت میں ’جناح ٹاور‘ کو حفاظتی حصار کی ضرورت کیوں پڑی؟

بھارت کے شہر گنٹور میں بانی پاکستان محمد علی جناح سے منسوب اس 80 سال پرانے ٹاور کے نزدیک ایک عارضی پولیس چوکی بھی قائم کی گئی ہے جہاں تعینات اہلکار یہاں سے گزرنے والوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

گنٹور میں اس ٹاور کو 1942 میں مسلم لیگ کے اُس وقت کے رکن اسمبلی شیخ محمد لال جان المعروف ایس ایم لال جان نے اپنے ذاتی خرچے پر تعمیر کروایا تھا(تصویر: صحافی راگھو انا)

بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے شہر گنٹور میں گذشتہ کئی روز سے جناح ٹاور کے اردگرد لوہے کی باڑ لگانے کا کام جاری ہے جبکہ مقامی حکام کے مطابق اضافی سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب مکمل کرلی گئی ہے۔

پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے منسوب اس 80 سال پرانے جناح ٹاور کے نزدیک ایک عارضی پولیس چوکی بھی قائم کی گئی ہے، جہاں تعینات پولیس اہلکار نہ صرف لوگوں کو ٹاور کے قریب جانے سے روک رہے ہیں بلکہ یہاں سے گزرنے والوں کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

گنٹور کی مقامی انتظامیہ کو یہ حفاظتی اقدامات ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اس دھمکی کہ ’نام نہ بدلے جانے کی صورت میں ہم اس ٹاور کو منہدم کریں گے‘ کے تناظر میں اٹھانے پڑے ہیں۔

دراصل حال ہی میں بی جے پی کے نیشنل سیکرٹری وائی ستیہ کمار نے جناح ٹاور کی ایک تصویر ٹویٹ کرکے اس پر ایک ایسی بحث چھیڑی جو سوشل میڈیا تک ہی محدود نہ رہی۔

انہوں نے تصویر کے ساتھ لکھا تھا: ’اس ٹاور کا نام جناح کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ علاقہ جناح سینٹر کہلاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ آندھرا پردیش کا شہر گنٹور ہے۔ یہ سینٹر آج بھی بھارت کے غدار سے منسوب ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر کلام (عبد الکلام) یا اس سرزمین کے سپوت اور عظیم دلت شاعر گرورام جاشوا کے نام پر کیوں نہ رکھا جائے؟‘

وائی ستیہ کمار نے حکومت پاکستان کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے دسمبر 2017 میں کی گئی ایک ٹویٹ بھی شیئر کی، جس میں اس ٹاور کو امن اور ہم آہنگی کی علامت قرار دیا گیا تھا۔

ٹویٹ میں کہا گیا تھا: ’آندھرا پردیش کے شہر گنٹور میں قائم جناح ٹاور ایک تاریخی یادگار ہے۔ اس کا نام پاکستان کے بابائے قوم محمد علی جناح کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ شہر کے مہاتما گاندھی روڑ پر واقع ہے۔ یہ امن اور ہم آہنگی کی ایک علامت ہے۔‘

وائی ستیہ کمار کے بعد آندھرا پردیش میں بی جے پی کے صدر سومو ویر راجو اور جنرل سیکرٹری وشنو وردھن ریڈی نے بھی جناح ٹاور کے خلاف بیانات دیے اور نام نہ بدلے جانے کی صورت میں اسے گرانے کی دھمکی دی۔

گنٹور میں مقیم صحافی راگھوانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’بی جے پی رہنماؤں کی دھمکی کے بعد آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی کی قیادت والی وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی حکومت نے جناح ٹاور کا نام بدلنے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

’گنٹور شہر میں جس مقام پر یہ ٹاور واقع ہے وہ ایک مصروف ترین بازار ہے جہاں ہر ایک چیز فروخت ہوتی ہے۔‘

 بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کے بعد گنٹور میونسپل کارپوریشن کے میئر منوہر نائیڈو اور سینیئر پولیس افسروں نے اس جگہ کا دورہ کیا۔

’میئر منوہر نائیڈو نے ہمیں (صحافیوں کو) بتایا کہ جناح ٹاور تحریک آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کی علامت ہے لہٰذا اس کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ بی جے پی شہر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

راگھو انا نے بتایا: ’جناح ٹاور کو بی جے پی کی کسی بھی ’شرارت‘ سے بچانے کے لیے اس کے اردگرد 10 فٹ اونچی لوہے کی باڑ لگائی جا رہی ہے، نیز پولیس اور سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی بھی بڑھا دی گئی ہے۔

’جناح ٹاور کے اردگرد تھوڑی خالی جگہ تھی جہاں لوگ کچھ دیر بیٹھ کر آرام کرتے تھے، لیکن اب کسی کو بھی ٹاور کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ خالی جگہ اب باڑ کے اندر آ گئی ہے۔‘

جناح ٹاور کی تاریخ

اس ٹاور کو 1942 میں مسلم لیگ کے اُس وقت کے رکن اسمبلی شیخ محمد لال جان المعروف ایس ایم لال جان نے اپنے ذاتی خرچے پر تعمیر کروایا تھا۔

ایس ایم لال جان کے پوتے ایس ایم ضیا الدین کو حال ہی میں آندھرا پردیش کی حکومت نے وزارت اقلیتی امور میں بحیثیت صلاح کار تعینات کیا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جناح ٹاور کی تاریخ یوں بیان کی: ’یہ سنہ 1942 کا واقعہ ہے۔ گنٹور کے حلقہ انتخاب ستنا پلی کے کومیرا پوڑی گاؤں میں انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑایا۔

’اس لڑائی میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والا ایک مقامی باشندہ مارا گیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو وہاں 14 مسلمانوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اُس وقت میرے دادا ایس ایم لال جان مسلم لیگ کے رکن اسمبلی تھے۔ وہ جناح صاحب کے ایک چہیتے کارکن تھے۔

’لال جان صاحب یہاں سے ایک وفد لے کر بمبئی (ممبئی) گئے۔ وہاں جناح صاحب کو واردات کی پوری تفصیلات فراہم کیں اور انہیں ان 14 مسلمانوں کا مقدمہ لڑنے پر راضی کیا۔ جناح صاحب نے بمبئی ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑا اور پھانسی کی سزا کچھ عرصے کی قید میں بدلنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

’لال جان اور گنٹور کے لوگ اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم جناح صاحب کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لیے ایک مینار تعمیر کریں گے۔ میرے دادا نے یہ مینار اپنے ذاتی خرچے پر تعمیر کروایا جس کا انہوں نے نام جناح ٹاور رکھا۔‘

’جب جناح ٹاور تیار ہوا تو میرے دادا کی قیادت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک مشترکہ وفد جناح صاحب سے ملنے کے لیے بمبئی گیا اور انہیں اس مینار کے افتتاح کے لیے گنٹور آنے کی دعوت دی۔ جناح صاحب نے وفد کو بتایا کہ اگر کوئی ناگزیر مصروفیات نہیں رہیں تو میں ضرور آؤں گا، تاہم وہ مقررہ تاریخ کو تحریک آزادی ہندوستان کے سلسلے میں کسی دوسرے اہم کام میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے لیاقت علی خاں کو ایک خط تھما کر اپنے نمائندے کے طور پر گنٹور بھیجا۔ انہوں نے مینار کا افتتاح کرنے کے موقع پر جناح صاحب کا وہ خط بھی پڑھ کر سنایا جس میں وہ گنٹور نہ آنے پر معذرت ظاہر کر رہے ہیں۔‘

’افتتاح کی تقریب میں گنٹور کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔ تب سے جناح ٹاور اپنے مقام پر کھڑا ہے اور دونوں (ہندو اور مسلمان) اس کے ساتھ گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔‘

بشیر احمد آندھرا پردیش میں انڈین یونین مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت کے صدر اور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بات سچ ہے کہ اس مینار کو ایس ایم لال جان نے ہی تعمیر کروایا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس مینار کی تاریخ کسی بھی کتاب میں درج نہیں ہے۔ اس کے متعلق دو مختلف بیانات پبلک ڈومین میں ہیں۔ ایک بیان یہ ہے کہ انگریزوں نے تحریک آزادی میں حصہ لینے پر 18 مسلمانوں کو پھانسی کی سزا سنائی تھی جبکہ دوسرا بیان یہ ہے کہ مسلمانوں نے کسی ہندو کو مارا تھا۔

’مگر دوسرا بیان مجھے اس لیے غیر مستند نظر آتا ہے کیوں کہ یہاں ہندو اور مسلمان بڑے پیار و محبت سے رہتے آئے ہیں۔ جناح صاحب کا بمبئی عدالت میں مسلمانوں کا مقدمہ لڑنا اور جیت جانا ایک ایسا واقعہ ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔‘

گنٹور سے تعلق رکھنے والے نامور مورخ سید نصیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جناح ٹاور گنٹور شہر کے لیے قلب اور مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔

’میرے پاس اس مینار کی تاریخ کے متعلق کوئی دستاویز نہیں ہے۔ یہ ایک عام سا مینار ہے لیکن بہت مشہور ہے۔ گنٹور شہر کا ہر ایک رہائشی اس جگہ کو جناح ٹاور کے نام سے ہی جانتا ہے۔ آپ گنٹور میں کسی سے بھی پوچھیں کہ مجھے جناح ٹاور جانا ہے تو وہ آپ کو وہاں پہنچنے کا راستہ بتا دے گا۔‘

’یہاں کے سبھی لوگوں نے بی جے پی کے مطالبے کی مخالفت کے ساتھ سخت مذمت بھی کی۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ جناح ٹاور ہے اور جناح ٹاور ہی رہے گا۔ پورے جنوبی بھارت میں ہندو اور مسلمان بھائی بھائی کی طرح رہتے ہیں۔‘

جناح اور ’جناح ٹاور‘ کا احترام

بشیر احمد کہتے ہیں کہ گنٹور ہی میں نہیں بلکہ پورے آندھرا پردیش میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد محمد علی جناح اور ان سے منسوب جناح ٹاور کا احترام کرتی ہے۔

’یہ ٹاور نہ صرف گنٹور بلکہ پورے آندھرا پردیش کی تہذیب اور ثقافت کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ آندھرا پردیش میں تقریباً سبھی لوگ جانتے ہیں کہ جناح ٹاور گنٹور میں ہے۔‘

بشیر احمد نے بتایا کہ کئی دہائیوں سے جناح ٹاور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مقامی میونسپل کارپوریشن نبھاتی آئی ہے اور بی جے پی رہنماؤں کے حالیہ بیانات سے پہلے کسی نے بھی اس ٹاور کے نام پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

’محمد علی جناح ایک عظیم مجاہد آزادی تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کا تحریک آزادی میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اس تنظیم کے نظریہ ساز مادھو سدا شیو گولوالکر نے ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں انہوں نے ہندوستان کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ تحریک آزادی میں حصہ نہ لیں۔

’میں نے حال ہی میں میونسپل کمشنر اور ضلعی پولیس سربراہ سے ملاقات کی۔ میری تجویز ہے کہ جناح ٹاور پر بھارتی پرچم یعنی ترنگے کی پینٹنگ بنائی جائے۔ اس کے بعد کوئی تنازع نہیں رہے گا۔ میں اس تجویز کو لے کر میئر سے بھی ملاقات کروں گا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے ہیں تو ہم کرنے کو تیار ہیں۔‘

گنٹور ایسٹ سے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے رکن اسمبلی محمد مصطفیٰ شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شہر کے مقامی ہندوؤں کو جناح ٹاور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

’گنٹور کے لوگ بی جے پی کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کے بیانات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں تو ہندو اور مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ میرے شہر میں مذہب کے نام پر کوئی لڑائی نہیں ہوتی۔

’میرے حق میں دونوں ہندوؤں اور مسلمانوں نے ووٹ ڈالے تھے۔ یہاں ہندو مسلمان کی سیاست نہیں چلتی۔ میرے لیے دونوں برابر ہیں۔

’کرونا (کورونا) وبا کے اس دور میں بی جے پی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کو راحت پہنچانے کا کام کریں۔ اس کے برعکس اس جماعت سے وابستہ رہنما ہر جگہ کا نام تبدیل کرنے کی سیاست میں لگے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ