عمران خان کو خطرہ کس سے ہے؟

عوام سے گفتگو میں وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ وہ اقتدار سے باہر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ دو سوال اہم ہیں ایک تو عمران خان کو خطرہ کس سے ہے اور دوسرا یہ کہ وہ کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟

اقتدار کی راہ داریوں میں اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان کو اس وقت ایسا بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ (تحریکِ انصاف فیس بک پیج)

عمران خان کی حکومت کو یا تو اپوزیشن گھر بھجوا سکتی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کوئی غیر جمہوری عمل کے ذریعے۔ لیکن اس وقت یہ دونوں خطرات موجود نہیں ہیں۔ نہ ہی اپوزیشن اب تک ان کے خلاف کوئی سنجیدہ تحریک چلا پائی ہے نہ ہی اسٹیبلشمنٹ انہیں اچانک رخصت کروانا چاہتی ہے، تو پھر انہیں خطرہ کس سے ہے؟

اس وقت عمران خان کی حکومت کو اگر کوئی سنگین خطرہ لاحق ہے تو اپنی کارکردگی سے اور سب سے بڑھ کر تحریک انصاف کے ان 22 ممبران قومی اسمبلی سے ہے جو اڑان بھرنے کے لیے سیٹ بیلٹ باندھ چکے ہیں۔ وزیراعظم صاحب ان دونوں خطرات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں جتنی دیر کریں گے اتنا ہی  وہ دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔

عمران خان کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال تو گذشتہ سال سے اسلام آباد میں گردش کر رہا ہے اور یقیناً جن لوگوں کو اس جواب کی تلاش تھی انہیں خیبر پختونخوا کے مقامی انتخابات کے نتائج کی صورت میں اپنا جواب کافی حد تک مل چکا ہے۔

اگر وہ پھر بھی سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ نکلے گا کون؟ یہ بات تقریباً طے ہے کہ ق لیگ ہو ایم کیو ایم ہو یا پھر جی ڈی اے وزیراعظم کا کوئی اتحادی ان کے اس بیانیے کا ساتھ نہیں دے گا۔ رہی بات ان کی اپنی جماعت کی تو اس میں ممکنہ ٹوٹ پھوٹ کی اتنی تیاری ہو چکی ہے کہ شاید ہمیں اس دفعہ کنٹینر پر علی محمد خان اور مراد سعید جیسے وفادار رہنماؤں کے علاوہ کوئی جانا پہچانا چہرہ ہی نظر نہ آئے۔

اقتدار کی راہ داریوں میں اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان کو اس وقت ایسا بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

عمران خان اس وقت دباؤ میں ہیں اور یہ دباؤ خراب حکومتی کارکردگی اور مہنگائی سے مزید بڑھتا جائے گا۔ انہیں اس بات کا بھی ادراک ہو چکا ہے کہ جو لوگ انہیں اقتدار میں لے کر آئے وہ شدت سے چاہتے ہیں کہ خان کی ناکامی کا بوجھ ان کے کندھوں سے اب اتر جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی بھرپور کوشش یہ ہو گی کہ حکومت کے خاتمے کے بعد ناقص کارکردگی کا ذمہ دار مقتدر حلقوں کو ٹھہرایا جائے۔ اس لیے ان کے حالیہ بیان کو مستقبل کے لیے پیش بندی ہی سمجھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی حکومت جاتے جاتے کوئی جادوئی کارکردگی دکھا دے، یہ بھی ممکن ہے کہ عوام کے دلوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دفعہ پھر خان صاحب کی محبت جاگ اٹھے لیکن ایسے تو صرف معجزات ہی ہو سکتے ہیں۔

پھر اصل مسلئہ کہاں ہے؟ گذشتہ دو کالموں میں تحریر کر چکا ہوں کہ عمران خان صاحب وہ نوشتہ دیوار نہیں پڑھ پا رہے جو پرویز خٹک پڑھ چکے ہیں۔ پے در پے واقعات یہ ثابت کر چکے ہیں کہ خان صاحب زمینی حقائق سے بے خبر ایک ایسی خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں آج بھی عمران خان پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں اور عوام ان کی ہر کال پر لبیک کہنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے، وزیراعظم صاحب کو اگر یقین نہیں آتا تو پرویز خٹک کو بلا کر پوچھ لیں کہ آپ صوبائی صدر بننے کے بعد جہاں جہاں جا رہے وہاں کارکن کیا ’فرما‘ رہے ہیں اور کیوں اپنی قیادت سے بدظن ہو چکے ہیں۔

ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت نے دو ہفتے پہلے بتایا کہ وزیراعظم شہزاد اکبر کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں اس لیے انہیں فارغ کرنے کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔ میرا اگلا سوال یہ تھا تقریباً ہر محکمے کے وزیر مشیر کو وہ کئی کئی بار ’پرفارمنس‘ نہ ہونے پر تبدیل کر چکے، کیا ان کو خود اندازہ ہے کہ بطور لیڈر ان کی اپنی پرفارمنس پر سنجیدہ سوالات اٹھ چکے ہیں؟

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ