ملکی معاشی مسائل: کیا عمران خان اگلے الیکشن میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو عمران خان نے کئی دہائیوں کی بدعنوانی اور اپنوں کو نوازنے کی روایت ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ناکامی کے اثرات بلدیاتی الیکشن سے ہی نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔

10 جنوری 2022 کو لی گئی اس تصویر میں دکاندار کراچی کے ایک بازار میں گاہکوں کا انتظار کر رہا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کی افراط زر تقریباً 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان حکومت کی جانب سے 2022 میں معیشت کی شرح نمو چار فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے تاہم پچھلے تین برس سے ملک کے معاشی حالات بڑی حد تک جمود کا شکار ہیں۔

افراط زر کے شکار پاکستان میں رہنے والی گھریلو خاتون مائرہ طیب خاندان کو کھانا کھلانے کے لیے بھیک مانگنے کا سوچ چکی ہیں۔ دکاندار محمد حنیف جرائم پر مائل ہیں۔

یہ خاتون خانہ اور دکاندار اتنے خوددار اور ایماندار ہیں کہ وہ اپنی اس سوچ پر عمل نہیں کریں گے لیکن وہ جن مسائل کا شکار ہیں لاکھوں پاکستانی بھی انہی حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان پاکستانی شہریوں کی ناراضی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے اگلے الیکشن میں دوبارہ انتخاب کے امکانات کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

ملک کے مصروف شہر اور معاشی ہب کراچی کی رہائشی 40 سالہ مائرہ طیب کہتی ہیں کہ’ہم سفید پوش لوگ ہیں بھیک نہیں مانگ سکتے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہماری گزر بسر کیسے ہو رہی ہے۔‘

عالمی بینک کے مطابق گذشتہ سال افراط زر کی شرح تقریباً 10 فیصد تک پہنچ گئی۔ عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خوردنی تیل کی قیمت میں 130 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایک سال میں ایندھن کی قیمت 45 فیصد بڑھ کر 145 روپے فی لیٹر ہو چکی ہے۔

جن خیالات کا اظہار طیب نے کیا وہی تاثرات پانچ بچوں کی ماں 50 سالہ خورشید شریف کے بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی خاندان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بددعائیں دیں۔ شریف کے بقول ’اس دور حکومت میں مسئلے کا حل موت ہی دکھائی دیتا ہے۔‘کرایے کے خستہ حال مکان جس کی دیواروں پر پلستر نہیں تھا، کے باہر کھڑے ہو کران خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ رو دینے کو تھیں۔

2018 میں جب  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اقتدار میں آئی تو عمران خان نے کئی دہائیوں کی بدعنوانی اور اپنوں کو نوازنے کی روایت ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن مسائل کرنے میں ناکامی کے اثرات پہلے سے ہی الیکشن میں نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کو پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

انسانی حقوق کے کارکن اور سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان کے مطابق: ’حکومت اپنی اقتصادی کامیابیوں پر شیخیاں مارنے میں مصروف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بنیاد اور ساکھ سے محروم ہو چکی ہے۔‘

عمران خان نے ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی مہم چلائی تھی جس میں کاروباروں اور افراد پر مؤثر ٹیکس لگایا جائے گا جب کہ غریبوں کے لیے سماجی بہبود کے منصوبوں کو فنڈ فراہم کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ عمران خان کو ورثے میں ملنے والی خراب معاشی صورت حال اور کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئیں لیکن ان کی پالیسیوں نے حالات سدھارنے میں بہت کم کردار ادا کیا۔

کراچی میں بین الاقوامی بنک میں کام کرنے والے رشیداسلم کہتے ہیں: ’کسی شعبے میں استحکام نہیں ہے۔ بیروز گاری اور افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی حقیقت ہے۔‘اعدادوشمار ان کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

اگرچہ 2022 میں معیشت کی شرح نمو چار فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے لیکن پچھلے تین سالوں سے یہ بڑی حد تک جمود کا شکار ہے۔ جولائی سے اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں 12 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ پانچ ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے کوئی مدد نہیں ملی حالانکہ بڑی تعداد میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر تقریباً 10 فیصد بڑھ کر 12.9 ارب ڈالر تک پہنچیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس ہفتے دلیل پیش کی تھی کہ پاکستان کے مسائل، خاص طور پر افراط زر کوئی نئی بات نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کے’سستے ترین ممالک میں سے ایک ہے۔‘

کچھ شعبوں میں بہتری

عالمی بنک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد صنعتی اور خدمات کے شعبے میں تیزی سے بہتری آئی ہے۔ اس سال اچھی بارشوں کی بدولت زراعت کو فروغ ملے گا۔ تاہم ملکی معیشت کو جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ 127 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت نے 2019 میں چھ ارب ڈالر کے قرضے کے لیے عالم مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے لیکن حکومت وعدے کے مطابق اصلاحات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے اب تک صرف ایک تہائی ہی قرضہ دیا ہے۔ مجوزہ اصلاحات میں کئی ضروری سروسز پر سبسڈیز کا خاتمہ شامل ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے کی تکلیف دہ شرائط قبول کرنی پڑیں جن میں پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سے پہلے حکومت نے منی بجٹ منظور کروایا جس میں درآمدات، برآمدات اور خدمات پر نئے ٹیکس لگائے گئے یا ان میں اضافہ کیا گیا۔ حکومت کے یہ اقدامات لاکھوں کے شہریوں کے غصے کا سبب بنے۔ اے ایف پی سے  بات کرنے والی خاتون خانہ، خورشید شریف نے اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہ’کیا آپ سوچ بھی سکتے ہیں کہ تیل اور چینی کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھ جائیں گی؟‘

ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر پہنچی پاکستانی حکومت نے حال ہی میں چین اور سعودی عرب سے  تین تین ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے دو ارب ڈالر حاصل کیے۔ ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کے بقول: ’وہ تمام قرضے جو اب کہیں سے بھی لیے جا رہے ہیں ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہیں۔ بنیادی طور پر معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ پاکستان اپنے قرضے ادا نہیں کر سکتا۔‘

اس کے باوجود کوئی بھی ان خدمات کے لیے ادائیگی کے لیے تیار نظر نہیں آتا جو وہ چاہتا ہے۔ ٹیکس چوری ایک قومی کھیل ہے۔ 2020 میں 20 لاکھ سے بھی کم لوگوں نے ٹیکس دیا حالانکہ کام کرنے والی آبادی اس سے 25 گنا زیادہ ہے۔ ٹیکس کی مد میں یہ وصولیاں علاقے میں سب سے تھوڑی پاکستان کیک مجمومی قومی پیداوار کے 10 فیصد سے بھی کم ہیں۔

اس فریب کاری نے گاڑیوں کی بیٹریاں مرمت کرنے کی چھوٹی سی دکان چلانے والے محمد حنیف کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے دوسروں طریقوں پر سوچنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ حنیف کے بقول: ’میرے ذہن میں مجرمانہ خیالات آتے ہیں کہ کس میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا لیکن میں خوف خدا کی وجہ سے ان خیالات کو جھٹک دیتا ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان